Episode 4 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر4 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

بدر حسین خاص ملازم تھا ممتاز بیگم کا، اُس نے ممتاز بیگم کے لیے چلائی ہوئی گولی اپنے سینے پر کھائی تھی۔
ممتاز بیگم نے بدر حسین کی قربانی کو یاد رکھا اور اُس کی بیوی اور دو بچوں باسط اور باذلہ کو اپنے گھر کے پچھلے حصے میں جگہ دی، اِس کے ساتھ ساتھ وہ تینوں ملازموں سے کچھ زیادہ تھے۔ اِسی لیے ممتاز بیگم کے کہنے پر شادی کا سارا خرچہ مزمل بیگ نے اُٹھایا تھا۔

بدر حسین اور بلقیس بی بی آپس میں چچا زاد بھی تھے۔ بلقیس بی بی کا میکہ اور سسرال معراج کے گاؤں میں ہی تھا۔ باسط اور بینش آپس میں خالہ زاد تھے۔ جن کی منگنی اُن کے پیدا ہوتے ہی طے پائی تھی۔ تب کسی کو پتہ نہیں تھا کہ باسط گونگا اور بہرہ ہے۔ باسط دیکھنے میں حسین و جمیل تھا اُس کی نسبت بینش عام سی شکل و صورت کی دیہاتی لڑکی تھی۔

(جاری ہے)


چند سال بعد ہی یہ منگنی ٹوٹ گئی تھی۔

جب بینش کے گھر والوں کو باسط کی معذوری کا پتہ چلا تھا۔ بینش اور باسط نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ہی تھے۔ اُنہی دنوں معراج کے گاؤں میں ایک شادی کے دوران بینش نے باسط کو دیکھا تو وہ باسط کو دل دے بیٹھی۔
بینش نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اپنے بچپن کے منگیتر ہی سے شادی کرے گی۔ بینش کی چار چھوٹی بہنیں بھی تھیں اور گھر کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔
اِس کے برعکس باسط کی اچھی خاصی ڈرائیور کی نوکری تھی۔ اُس کی ماں اور بہن کو بھی ممتاز بیگم بہت کچھ دیتی رہتی تھیں۔
بلقیس جب بھی معراج کے جاتی وہ اپنی شاہانہ زندگی کا خوب پرچار کرتی، جس کا اثر یہ ہوا کہ بینش کے گھر والے بھی اِس رشتے پر رضا مند ہوگئے۔
بلقیس کی ساری رشتے داری معراج کے گاؤں میں ہی تھی۔ اِس لیے بارات کے چند افراد مزمل کی فیکٹری کے ملازم ہی تھے۔
جن سب کو باسط نے ہی دعوت دی تھی۔ باذلہ کو ویسے ہی اپنے رشتہ داروں سے چڑ تھی۔ جس وجہ سے اُس نے اپنی کسی سہیلی کو اپنے بھائی کی شادی میں دعوت ہی نہیں دی تھی۔
مزمل بیگ کو شور شرابہ پسند نہیں تھا۔ اِس لیے اُس نے زیادہ ملازم نہیں رکھے تھے۔ دو سیکورٹی گارڈ اورگھر کے کاموں کے لے ایک ماسی۔ ممتاز بیگم کے سارے کام بلقیس کے ذمے تھے اور باذلہ مزمل کا خیال رکھتی تھی۔
کام والی ماسی صبح آتی اور گھر کے سارے کام کرکے شام کو واپس چلی جاتی۔
#…#
دروازے پر دستک ہوئی۔
”کم اِن… باذلہ“ مزمل نے بزنس فائل پڑھتے ہوئے کہا ۔باذلہ کمرے میں چائے لے کر داخل ہوئی اُس نے چائے کی ٹرالی مزمل کے بیڈ کے ساتھ لگا دی۔
مزمل بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے فائل پڑھ رہا تھا کمبل اُس کی ٹانگوں پر تھا۔ فائل اُس کے ہاتھ میں اور نظریں فائل پر جمی ہوئی تھیں۔

”شکریہ…باذلہ“ اُس نے باذلہ کو بغیر دیکھے ہی کہا۔
”بھائی…! بیٹھ جاؤ…؟“باذلہ ہولے سے بولی۔
”ہوں…کوئی کام ہے“ مزمل اُسی تال میں پھر بولا۔
نہیں…بس آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا“ باذلہ نے رُک رُک کر کہا۔ مزمل نے اُس کی طرف دیکھا۔
”شکریہ…؟کیوں…؟“
”آپ میرے کہنے پر بارات کے ساتھ چلے گئے…مجھے پتہ ہے آپ ہلہ گلہ پسند نہیں کرتے… زیادہ بولتے بھی نہیں ہیں… پر آج تو آپ نے کمال ہی کر دیا… آپ نے تو آج تقریر ہی کردی۔
“باذلہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے نظریں جھکائے ہوئے بول رہی تھی۔
”تقریر…؟ کب…؟“مزمل نے دلچسپی سے پوچھا۔
”جب آپ نے…دیکھیں جی کہہ کر لڑکیوں کو مخاطب کیا تھا۔ پھر شمائل کو مس کہا“
”باذلہ…! بے وقوف تنقید کی بجائے تعریف سے مرتا ہے۔ اب تم جاؤ آرام کرو اور شادی کے بعد اپنی اسٹڈی پر توجہ دو“
#…#
”میٹرک پاس تم کر نہیں سکی… اور خواب مزمل بیگ کے دیکھ رہی ہو“ ستارہ اپنی سہیلی شمائل کو موبائل پر کھری کھری سُنا رہی تھی۔

”اُس نے مجھے حُسن کی ملکہ کہا تھا“ شمائل کھوئی ہوئی بولی ۔
”کانے کو بھی کانا کہو تو وہ بُرا مان جاتا ہے…اُس نے تمھیں اُلّو بنایا تھا، ملکہ عالیہ…!“ ستارہ نے بڑی شائستگی سے سچائی بتائی۔
”مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے“ شمائل نے موبائل پر اپنے دل کا حال سنایا۔
”وہ تو تمھیں اکثر ہی ہوجاتی ہے …محبت تو اندھی ہوتی ہے…تم تو اندھی مت بنو…کہاں وہ اور کہاں تم…“
”کیا کمی ہے مجھ میں…خوبصورت ہوں…پڑھی لکھی ہوں دو مربعے زمین خالی میرے نام ہے“شمائل نے لگے ہاتھ اپنی صورت ، قابلیت اور حیثیت بیان کردی۔

موبائل کی دوسری طرف سے ہنسی کی آواز آرہی تھی۔
”دانت کیوں نکال رہی ہو…کیا میں نے جھوٹ کہا ہے “ شمائل نے خفگی کا اظہار کیا۔
”نہیں …نہیں…ایسا کب کہا میں نے … خوبصورت تو تم ہو ۔آج دُلہن سے زیادہ بناؤ سنگھار کیا تھا تم نے… چار دفعہ میٹرک کا امتحان دینا سمجھو تو بی اے کے برابر ہی ہے۔ جہاں تک دو مربعوں کی بات ہے تو وہ بھی سچ کہا تم نے لیکن مسئلہ یہ ہے یہ باہر کے پڑھے لکھے لوگ سیب اور گاجر کا مربع نہیں کھاتے“
”فون بند کرو…لگتا ہے ابّا اور لالہ شمعون ملک وال سے آگئے ہیں“ شمائل نے جلدی سے کال کاٹ دی۔

#…#
باسط خوشی سے جھومتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کا کمرہ گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ بینش دُلہن بنی اُس کی راہ دیکھ رہی تھی۔ باسط نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے کی کنڈی لگائی اور آکر بینش کے پہلو میں بیٹھ گیا دونوں کے دلوں کی دھڑکنیں عروج پر تھی۔
باسط نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ بینش کی ٹھوڑی اُٹھائی بینش نے سہمی مسکراہٹ سے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
دونوں کافی دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
باسط کو کچھ اور سمجھ نہیں آیا تو اُس نے جلدی سے سائید ٹیبل کے نیچے والے خانے سے ایک جیلوری باکس نکالا اور کھول کر بینش کے سامنے پیش کر دیا، اُس میں ایک لاکٹ تھا۔ جس پر انگلش میں بینش لکھا ہوا تھا۔
”مزمل صاحب نے خرید کر دیا ہے…؟“ بینش نے دھیمی اور سہمی آواز میں ہاتھ کے اشاروں کے ساتھ رُک رُک کر پوچھا۔
باسط کو اُس کی بات سمجھ آئی گئی تھی۔
”خود خریدا ہے… تمھارے لیے…“ باسط نے ہاتھوں کے اشارے سے بڑے فخر سے بتایا تھا۔
”کتنے تولے کا ہے…“ بینش نے حسرت بھری نگاہوں سے ہار پر ہاتھ رکھنے کے بعد اشاروں میں پوچھا تھا۔
”تین تولے“ باسط نے ہاتھ کے اشاروں کے بعد اپنی تین انگلیوں کو ہوا میں لہرایا کہیں بینش مغالطے میں نہ رہ جائے۔
”اتنے پیسے کہاں سے آئے“ بینش نے ہاتھ کے اشاروں کے ساتھ دھیمی آواز میں پوچھا۔
باسط دیکھ کر مسکرایا اور اشارے کرکے سمجھانے لگا:
”فیکٹری میں …کمیٹی ڈالی تھی…وہ نکلی ہے“
”کمیٹی کتنے کی تھی…؟“ بینش اِس بار بغیر اشاروں کے ہی بول پڑی۔ باسط کو بس اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آئے تھے۔ اُس نے کچھ دیر سوچا پھر وہ لاکٹ باکس سے نکالا اور بینش کے گلے میں خود ہی پہنا دیا۔
پھر اُس نے بیڈ کے ساتھ پڑے ہوئے میز کی طرف دیکھا جس پر کھانے کی بے شمار اشیاء موجود تھیں۔
اُس نے دو کپوں میں گرم دودھ ڈالا جس میں خشک میوہ جات کی بھرمار تھی۔
بینش کا سارا خوف دور ہوگیا تھا۔ باسط بھی پر اعتماد تھا۔ دودھ ختم کرنے کے بعد اُس نے کپ میز پر رکھے۔ بینش سے اشاروں میں پوچھا کہ وہ کچھ کھائے گی۔ بینش نے مٹھائی والی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ باسط نے مٹھائی کی پلیٹ اُٹھائی اور بینش کو پیش کی بینش نے ایک گلاب جامن اُٹھایا اور باسط کے منہ میں ڈالا باسط نے آدھ گلاب جامن کھایا باقی آدھا بینش نے خود کھا لیا۔

باسط اُٹھا اور کمرے کی بتی بجھا دی۔ ابھی بتی بجی ہی تھی بینش کا موبائل جل اُٹھا، اس نے تکیے کے پاس سے اپنا موبائل اُٹھایا۔ موبائل پر شمائل کا نام روشن ہوا۔ بینش نے غصے سے اپنا موبائل Offکر دیا۔
#…#
موبائل کی بیل مسلسل ہو رہی تھی۔ ماہم نے لکڑی کے جائے نماز پر مصلیٰ سمیٹا اور بیڈ پر پڑے موبائل کو اُٹھایا۔ عشال کی کال تھی ۔

”تم ابھی تک سوئی نہیں…؟“ ماہم نے کال ریسیو کرتے ہی کہہ دیا۔
”No“
”کیوں…؟“
”حارث کی کال تھی… مانچسٹر سے…“عشال نے رومینٹک انداز میں اپنی لٹ کو بل دیتے ہوئے نہ سونے کی وجہ بتائی۔
”کب سے فون کر رہی ہوں… Where have you been?“
”میں نماز پڑھ رہی تھی…عشال! تم بھی حد ہی کر دیتی ہو ایک دفعہ کال ریسیو نہیں کی تو سمجھو کچھ مصروفیت ہوگی“
”سوری…مجھے آئیڈیا نہیں تھا… تم نماز پڑھ رہی ہو…“
”ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھنا“
”تمھارا زخم کیسا ہے…؟“ عشال نے شرارتی انداز میں پوچھا۔

”کون سے زخم…؟“
”جو چوڑیاں ٹوٹنے سے تمھاری کلائی پر ہوا تھا…“
”معمولی سی خراشیں ہیں…زخم تھوڑی نا ہے“ماہم نے اپنی کلائی کی طرف دیکھتے ہوئے میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔
”ماہم چوہدری! ایسی خراشیں بعد میں گھاؤ بن جاتی ہیں“
”ارے جاؤ…جاؤ…گھاؤ بن جاتی ہیں“ ماہم نے بے پرواہی سے جواب دیا۔
”تصویریں دیکھیں جو میں نے وٹس اپ کی تھیں“ عشال نے اشتیاق سے پوچھا۔

”نہیں تو…“
”دیکھو… جلدی دیکھو“ عشال نے زور دے کر کہا۔ چند منٹ موبائل کے دونوں اطراف خاموشی رہی۔ ماہم موبائل پر اپنی اور مزمل کی تصویریں دیکھ رہی تھی اور عشال خیال کی آنکھوں سے ماہم کو دیکھ رہی تھی۔
”کیسی ہیں…؟“ عشال کی آواز سے ماہم تصویروں سے حقیقت میں واپس آئی۔
”عشال…! ابھی کے ابھی … یہ ساری تصویریں اپنے موبائل سے Deleteکرو “ماہم نے سختی کے ساتھ عشال کو حکم دیا تھا۔

”تمھیں Sendکرنے کے بعد…پہلا کام یہی کیا تھا۔ حارث کی قسم…!“عشال نے سنجیدگی سے خود ہی حارث کی قسم بھی اُٹھائی۔ ماہم کو پتہ تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے۔
”ماہم تمھیں ایک بات بتاؤں…“
”بتاؤ…“
”تمھیں مزمل بیگ سے محبت ہوگئی ہے“
”چل جھوٹی…“ ماہم نے ہنستے ہوئے کہا، پھر لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگی:
”تم کیسے کہہ سکتی ہو…؟“
”آفٹرآل تم سے سینئر ہوں… ایک عدد فیانسی کی مالک ہو“
”منگنی تو میری بھی ہو چکی ہے۔
پھر تم سینئر کیسے ہوئی…؟“
عشال کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ماہم کی بات سُن کر۔ عشال مسکراتے ہوئے بولی :
”بہت فرق ہے…مائی ڈیئر ماہم…! میں نے محبت کا کھیل ،کھیل کر حارث کو جیتا ہے… جبکہ تمھارے گلے میں چوہدری شمعون کا گولڈ میڈل ، بغیر تمھاری مرضی کے ہی ڈال دیا گیا ہے۔ رکھتی ہوں…اوکے بائے“ عشال نے کال ڈس کونیکٹ کردی۔
”چوہدری شمعون…!“
ماہم نے اُداسی کے ساتھ خود کلامی کی۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan