Episode 14 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر14 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

عشال کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، جب اُس نے ممتاز بیگم کو دیکھا۔ حکیم صاحب کو ایسے لگا اُن کی ماں، ماسی کی شکل میں اُن کے گھر آگئی ہے۔
وہ بڑی محبت سے اپنی خالہ کو ملے۔ انہوں نے ماضی کی کوئی کہانی نہیں کھولی ۔ وہ اپنے حال میں خوش …حال کو جی رہے تھے۔
حکیم صاحب نے نکاح کی اس تقریب میں صرف ماسٹر محمود کے گھر والوں کو دعوت دی تھی۔
مریم اور مومنہ موجود تھیں۔ ماہم غیر حاضر تھی۔ مومنہ اور باذلہ عشال کو خود ہی تیار کر رہی تھیں۔
”ماہم کیوں نہیں آئی…“ عشال نے میک اپ کرواتے ہوئے پوچھا تھا۔
”اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پھر بھی وہ نکاح سے پہلے آجائیں گی“ مومنہ نے عشال کی آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے جواب دیا۔
”کل لیٹ نائٹ میری موبائل پر بات ہوئی تھی کہنے لگی اب ٹھیک ہوں“ عشال نے کہا۔

(جاری ہے)


”صبح سے پھر ہلکا ہلکا بخار ہے“ مومنہ نے عشال کو لپ اسٹک لگاتے ہوئے بتایا۔
”بخار تو آج مزمل بھائی کو بھی تھا“ باذلہ نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے اطلاع دی۔
”نائس ویری نائس میں تو رومیو جولیٹ سمجھتی تھی … یہ تو لیلیٰ مجنوں نکلے۔ کوڑے مجنوں کو لگتے تھے اور نشان لیلیٰ کے جسم پر پڑتے تھے۔“ میک اپ کرواتے ہوئے بھی عشال کی زبان کچر کچر چل رہی تھی۔

”کیا مطلب آپی!“
”میں سمجھی نہیں“
مومنہ اور باذلہ نے اپنی اپنی تشویش ایک ساتھ ظاہر کر دی۔ عشال کے کان کھڑے ہوگئے۔ اُس نے خود کو شٹ اپ کہا :
”کنٹرول کنٹرول عشال! کیا اول فول بک رہی ہو۔ “ عشال نے دل ہی دل میں خود کو ملامت کی۔
”کچھ نہیں مجھے حارث نے ایک لطیفہ سنایا تھا وہ یاد آگیا تھا“ عشال نے اپنی طرف سے بات گول کرنے کی پوری کوشش کی۔
مومنہ اور باذلہ باقی میک اپ کے دوران خاموش ہی رہیں۔ وہ خود ہی سے سوال کرتیں اور خود ہی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتیں۔
مومنہ کو بھی اِس بات کی خبر تھی کہ مزمل تقریباً چھ ماہ سے ہر روز صبح معراج کے آتا ہے اور باذلہ یہ جانتی تھی کہ مزمل ہر روز چھ ماہ سے فجر سے پہلے گھر سے نکل جاتا ہے۔
اُن دونوں نے عشال کو دُلہن کی طرح تیار کر دیا تھا۔

#…#
”دُلہن کہاں ہے…؟“ حلیمہ نے آواز لگائی جو شربت پی کر فارغ ہو چکی تھی۔
”حکیم صاحب ! عشال بیٹی کو یہاں ہی بُلا لیں“ باہر کا کوئی نہیں سب اپنے ہی ہیں“ مریم بی بی بولی۔
”ماہم بیٹی! عشال کو یہاں ہی لے آؤ“ حکیم صاحب نے بیٹھک سے ساتھ والے کمرے میں آواز دی۔
عشال دُلہن بنی ہوئی آکر حارث کے برابر بیٹھ گئی۔
حارث بھی پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
حکیم صاحب نے خود ہی اُن دونوں کا نکاح پڑھایا۔ اُس کے بعد کھانے کا اہتمام تھا۔
سب مہمان کھانا کھانے کے بعد معراج کے روانہ ہو چکے تھے۔ ممتاز بیگم نے بلقیس،باسط اوربینش کو بھی معراج کے روانہ کر دیا تھا۔ صرف باذلہ ممتاز بیگم کے لیے رُک گئی تھی۔ وہ ویسے بھی اپنے رشتے داروں سے کم ہی میل ملاپ رکھتی تھی۔
رات کافی ہو چکی تھی۔
حکیم صاحب مریم بی بی اور مومنہ کو چھوڑنے گئے تھے۔ ماہم اپنے وعدے کے مطابق رُک گئی تھی۔
ممتاز بیگم اور باذلہ کو حکیم صاحب نے اپنے گھر کا سب سے اچھا کمرہ پیش کیا تھا۔
ممتاز بیگم کو دوائی کھلانے کے بعد باذلہ اُن کو دبا رہی تھی۔ جب عشال ماہم کو لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
”سہیلی ! کیسا لگا آپ کو حارث!“ عشال نے فخریہ انداز کے ساتھ پوچھا۔

”دادی کی نظر سے بھی دیکھوں تو بھی مزمل سے خوبصورت ۔ عشال کی نظر میں تو وہ ہے ہی سب سے حسین…“ عشال نے دادی کی بات سُنی تو کھِل اُٹھی اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہنے لگی :
”یہ ہے…ماہم چوہدری“ عشال نے ماہم کے کندھے پر ایسے ہاتھ رکھا تھا جیسے کوئی انتہائی قیمتی چیز ہو، جو زیادہ وزن ڈالنے سے ٹوٹ جائے گی۔
”ما شاء اللہ․․․․․․․․․․ ما شاء اللہ… عشال بیٹی! رب سچا جھوٹ نا بلوائے کسی بھی آنکھ سے دیکھ لو ماہم بہت خوبصورت ہے…!“ ممتاز بیگم نے چشم الفت سے ماہم کو دیکھا۔
عشال نے ممتاز بیگم کی آنکھوں میں محبت کے جھرنے دیکھے تو کہنے لگی :
”دادی ! آپ کہہ دیں عشال تم اِس کے آگے کچھ نہیں۔ خدا کی قسم مجھے پھر بھی اچھا لگے گا“
”اِدھر آؤ ماہم بیٹی!!“ باذلہ پیچھے ہٹ گئی اور ماہم ممتاز بیگم کے پاس بیٹھ گئی ۔
”ماہم بیٹی! میری دعا ہے اللہ تمھیں ہمت دے کہ تم اپنے باپ کی زبان کا پاس رکھ سکو۔ ساتھ ساتھ میں یہ دعا بھی کرونگی ۔
اللہ تمھارے دل کی جائز خواہشیں بھی پوری کرے“ممتاز بیگم کی باتیں سُن کر باذلہ سوچ میں پڑھ گئی تھی۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ممتاز بیگم سوگئیں۔
”چلو چھت پر چلتے ہیں“ عشال نے تجویز دی۔ باذلہ نے اپنا چشمہ اُتارتے ہوئے کہا:
”اِس وقت…؟“
”موڈ نہیں ہے تو آرام کرو… اِس کا آج نکاح ہوا ہے اِسے کہاں نیند آئے گی“ ماہم نے باذلہ کی حیرت کو اپنے دلائل سے دور کرنے کی کوشش کی۔

باذلہ کی حیرت مسکان میں بدل گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ تینوں چھت پر تھیں۔ گھر کی چھت پر ایک ممٹی بھی تھی۔ جس کے ساتھ ایک بانس کی سیڑھی کھڑی تھی۔
”چلو اوپر چلتے ہیں ․․․․․․․․․․“عشال نے چھت سے اوپر ممٹی پر جانے کا کہہ دیا۔ باذلہ نے پھر سے ماہم کی طرف دیکھا۔ ماہم نے عشال کی طرف اشارہ کیا جو بانس والی سیڑھی سے اوپر جا رہی تھی۔
”تم نے وہ گانا تو سنا ہو گا… آج پھر جینے کی تمنا ہے۔
آج پھرمرنے کا ارادہ ہے۔ اِس کے ساتھ بھی آج وہی معاملہ ہے“
عشال کے پیچھے پیچھے ماہم بھی سیڑھی سے ممٹی پر پہنچ گئی ۔باذلہ نے بھی ڈرتے ڈرتے سیڑھی پرپیر رکھے اور خدا خدا کر کے ممٹی کے اوپر عشال اور ماہم کے پاس چلی گئی۔
ہوا چل رہی تھی ۔ دور سے گیہو کے تھر شر کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں جی ٹی روڈ سے کوئی بس کوئی ٹرک گزرجاتا ۔
دور دور تک گندم کی کٹائی کے بعد کھیت خالی تھے۔
وہ تینوں آلتی پالتی مار کر ممٹی کی سیمنٹ کی چھت پر بیٹھ گئیں۔ جس میں اب بھی جون کی دھوپ کی تپش تھی۔ تھوڑی دیر بعد عشال کو یاد آیا۔
”میں نے تو آم ٹھنڈے کرنے کے لیے رکھے تھے“ عشال نے یہ کہا اور جلدی سے بانس کی سیڑھی سے اُتر گئی چھت پر ۔
”آپ کیا کرتی ہیں…“ باذلہ نے روایتی سا سوال پوچھ لیا وقت گزاری کے لیے۔
ماہم نے سامنے اسکول کی گراؤنڈ میں لگے پاکستانی پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:
”وہ جھنڈا دیکھ رہی ہو…وہ میرا اسکول ہے…“
”مزمل بھائی کی طرح بزنس کرتی ہیں“ باذلہ نے جلدی سے کہہ دیا۔ مزمل کا نام سنتے ہی ماہم کے دل کو کھیچ سی لگی۔ماہم نے اپنی دِلی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہا:
”نو پرافٹ نو لاس… ایسا ہے میرا بزنس …“
”مطلب…؟“باذلہ نے حیرانی سے پوچھا۔

”مطلب یہ …جو لڑکیاں فیس دیتی ہیں۔ اُس سے سٹاف کی سیلری اور دوسرے خرچے نکل جاتے ہیں“
ماہم کی بات سُن کر باذلہ کو خوشی ہوئی تھی، اُس نے خوشی سے پوچھا:
”سب لڑکیوں سے فیس نہیں لیتیں، ماہم آپی !بہت بڑی بات ہے“
”باذلہ! پاکستان میں لڑکیوں کو اس وجہ سے بھی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کہ اُن کی تعلیم پر خرچہ ہوگا۔ تعلیم تو شعور کے لیے حاصل کرنی چاہیے … نوکری حاصل کرنے کے لیے نہیں۔
میں چاہتی ہوں لڑکیوں کوزندگی گزارنے کا شعور آجائے۔ وہ اونچ نیچ کو سمجھ جائیں کم از کم اِس قابل ہوجائیں کہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں … اچھی مائیں اچھی نسل کی بنیاد رکھتی ہیں … ابّا کی زمینوں سے اتنا آجاتا ہے کہ ہماری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ مجھے بزنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”آپ بزنس وومن نہیں ہیں…میں غلط سمجھی تھی۔ آپ تو سوشل ورکر ہیں…بالکل مزمل بھائی ہی کی طرح۔
مزمل بھائی نے بھی اپنی فیکٹری کے کئی ملازموں کی بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھائے ہوئے ہیں بشمول میرے۔“
”اچھا…“ مزمل کا نام سُن کر ماہم کو پھر سے کچھ کچھ ہوا تھا۔ماہم یہ بات سُن کر باغ باغ ہوگئی تھی، مگر اُس نے باذلہ پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔
”مزمل بھائی! کہتے ہیں باذلہ ڈاکٹر ضرور بنو مگر پیسے کمانے کی غرض سے نہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کی خدمت کروگی تو وہ تمھارے تھوڑے میں بھی برکت ڈال دے گا۔

”ٹھنڈے ٹھنڈے آم لے کر عشال آگئی“ عشال نے اپنے آنے کا خود ہی اعلان کر دیا۔ وہ سلور کی دیگچی اُٹھائے ہوئے پہنچی تھی۔ جس کے اندر پانی اور برف میں ڈوبے ہوئے ٹھنڈے یخ آم تھے۔
”اُن تینوں نے خوب پیٹ بھر کے آم کھائے۔ باتوں باتوں میں رات کٹ گئی، جس کی خبر اُن تینوں کو تب ہوئی جب حکیم صاحب نے سپیکر میں اذان شروع کی۔ اذان کی آواز سنتے ہی۔
ماہم نے جاتے ہوئے صرف اتنا کہا :
”باذلہ اللہ حافظ“ وہ جلدی سے بانس کی سیڑھی اُتر گئی۔ باذلہ یہ سوچ کر پریشان تھی اِسے کیا ہوا۔ ماہم کے پیچھے ہی تھوڑی دیر بعد عشال بھی نیچے اُتر گئی۔ باذلہ ڈرتے ہوئے سیڑھی کی طرف بڑھی اُسے گلی میں ماہم نظر آئی جس نے جلدی سے اپنے دروازے کا لاک کھولا اور ساتھ ہی رُک گئی۔ جی ٹی روڈ سے اِس چھوٹی سڑک پر ایک سایا نمودار ہوا۔
ماہم نے ایک نظر اُس سائے والے شخص کی طرف دیکھا پھر جلدی سے اندر چلی گئی۔
وہ سایا چھوٹا ہوتا ہوا ایک لڑکے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ قد کاٹھ یہ چال ڈھال سب کچھ باذلہ کے دیکھے بھالے تھے، اُس نے حیرت سے صرف اتنا کہا :
”مزمل بھائی…؟ یہاں…اِس وقت…؟“ باذلہ کا اس کے بعد سیڑھی سے ہٹ کر سارا دھیان مزمل کی طرف ہوگیا تھا۔ وہ بغیر خوف کے بانس کی سیڑھی اُتر آئی ۔ باذلہ نے پھر حیرت سے اپنے منہ میں کہا :
”مزمل بھائی…!“
مزمل نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے اِک نظر ماہم کو دیکھا۔ آج ماہم کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ کھلے ہوئے سرخ گلاب کی طرح۔ مزمل کے دل کو راحت نصیب ہوئی۔ وہ فیکٹری رُکنے کے بجائے لاہور واپس چلا گیا۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan