Episode 2 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر2 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

”مزمل بیٹا! کیا بات ہے…؟ جب سے آئے ہو کچھ اُلجھے اُلجھے سے ہو۔“ ممتاز بیگم نے حلیمی سے پوچھا۔
”دادو! کئی گھنٹے کی فلائٹ تھی، بس تھکاوٹ ہے اور کچھ نہیں…آپ پریشان نہ ہوں“مزمل نے بات ٹالتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے…تم جا کے آرام کرو۔ کل بارات کے ساتھ بھی تم نے جانا ہے…“ ممتاز بیگم نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہا تھا۔
مزمل نے سُنا تو اُس نے شکایتی نظروں سے اپنی دادی کو دیکھا۔ دادی کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی۔
”مزمل بیٹا! میں بلقیس سے وعدہ کر چکی ہوں کہ مزمل بارات کے ساتھ ضرور جائے گا۔ اُس بیچاری کا مان رہ جائے گا۔“
”دادو! آپ کچھ زیادہ ہی ماسی بلقیس پر مہربان ہیں۔“مزمل نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”بلقیس کا تجھ پر بڑا احسان ہے…مزمل بیٹا…!!“
”مجھ پر احسان…؟ وہ کیا…؟“مزمل نے حیرت اور تجسس سے کہا۔

(جاری ہے)


”بتاؤں گی…ضرور بتاؤں گی…وقت آنے پر…“
ممتاز بیگم نے گھائل آواز کے ساتھ کہا۔ مزمل کے چہرے پر کئی سوال بکھر گئے، ممتاز بیگم نے دیکھا تو جلدی سے مسکراتے ہوئے بات بدلی۔
”تم بیٹی پر مہربان ہو…میں اُس کی ماں پر…“
”باذلہ کہاں ہے نظر نہیں آئی۔۔؟“ مزمل نے پوچھا۔
”تمھارے لیے رشین سیلڈ بنانے گئی ہے“ ممتاز بیگم نے بتایا۔
”دادو!! میں اپنے روم میں جا رہا ہوں آپ کھانا وہیں بھجوا دیجئے گا“ مزمل یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔

”اب تک کھانا تمھارے روم میں لگ چُکا ہوگا“ممتاز بیگم نے یقین کے ساتھ کہا۔
#…#
بھائی!! اسلام علیکم…!“باذلہ نے مزمل کو دیکھتے ہی کہہ دیا، جو اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تھا۔ باذلہ بیڈ روم میں ڈسٹنگ کر رہی تھی۔
”وعلیکم السلام …“ مزمل نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اُس نے واڈ روب سے کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گیا۔
وہ واش روم سے نکلا تو باذلہ بھی ٹرالی کے ساتھ کمرے میں وارد ہوئی۔ باذلہ نے ٹیبل پر کھانا لگانا شروع کر دیا تھا۔مزمل شیشے کے سامنے بالوں میں برش کرنے میں مصروف تھا۔
”بھائی…! ڈنر از ریڈی…“باذلہ نے اسٹائل سے سینٹرل ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع دی۔
”بھائی…! آج میں نے آپ کے لیے…فروٹ چاٹ کی جگہ رشین سیلڈ بنایا ہے…میں نے ڈائجسٹ میں ریسپی پڑی تھی…“ ڈائجسٹ کا نام سُنتے ہی مزمل نے عجیب نظروں سے باذلہ کی طرف دیکھا۔
باذلہ نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی اور چو ر نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ مزمل نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے رشین سیلڈ ہی اپنی پلیٹ میں ڈالا اور کھانے لگا۔ وہ خاموشی سے کھا رہا تھا اور باذلہ مجرموں کی طرح اُس کے سامنے کھڑی تھی۔
”بھائی!! سچ کہوں میں نے پچھلے چھ ماہ سے کوئی ناول کوئی ڈائجسٹ نہیں خریدا ہاں وعدہ خلافی ضرور کی ہے۔
کالج میں سہیلیوں سے لے کر ضرور پڑھ لیتی ہوں۔ آج آپ سے پکا وعدہ کرتی ہوں جب تک ڈاکٹر نہیں بن جاتی کوئی ناول نہیں پڑھوں گی چاہے وہ نمل آپی کا ہی کیوں نہ ہو۔ “ نمل کا نام سُن کر مزمل نے گردن اُٹھا کر باذلہ کی طرف دیکھا اُس نے دل میں سوچا باذلہ کو نمل حیدر کے متعلق بتاتا ہوں۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا۔ باذلہ فٹ سے بول پڑی :
”سوری بھائی! مجھے پتہ ہے آپ میرے لیے ہی کہتے ہو… آئندہ نمل آپی کا ذکر بھی نہیں کروں گی… آپ کی قسم…“باذلہ نے بڑی معصومیت سے قسم اُٹھائی تھی۔
مزمل اُس کے بھولے پن پر مسکرا دیا۔ باذلہ نے مزمل کی مسکراہٹ کا فائدہ اُٹھایا اور جلدی سے فرمائش کر دی :
”بھائی … ! ایک ریکوسٹ تھی…؟“باذلہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ مزمل نے سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھا اور اپنے ابروں سے بولنے کا اشارہ کیا۔
”پلاؤ بھی کھائیں نا…“باذلہ نے بات بدل دی ۔ مزمل نے جانچتی نگاہ اُس پر ڈالی اور کہنے لگا :
”اصل بات بتاؤ…!“
”آپ بھی باسط بھائی کی بارات کے ساتھ چلیں نا … امّی نے سارے معراج کے میں مشہور کر دیا ہے کہ ہمارا سیٹھ بھی بارات کے ساتھ آئے گا…“
”سیٹھ … ؟“مزمل نے سیٹھ سُن کر عجیب سا منہ بنایا تھا۔

”امّی نے معراج کے میں سب لوگوں کو آپ کا نام سیٹھ صاحب ہی بتایا ہے…اگر آپ نہ گئے تو سارے شریکے میں امّی کی ناک کٹ جائے گی…“
”باذلہ !!یو نو…میں شادیوں میں نہیں جاتا…!“مزمل نے حتمی انداز میں کہا۔
”بھائی…! آئی نو… آپ مجھے بہن جیسی سمجھتے ہیں نا پلیز میری خاطر ہی سہی۔“ باذلہ نے مودبانہ گذارش کی تھی۔
”آپ نے طے کرنا ہے باذلہ آپ کی بہن ہے یا نہیں۔
جیسی کو بیچ میں سے نکال دو۔“ نمل حیدر کے الفاظ مزمل کے کانوں میں گونجے… مزمل نے چشم الفت سے باذلہ کو دیکھا پھر کہنے لگا :
”تم بہن جیسی نہیں…بلکہ تم میری بہن ہو…ہے تو بہت مشکل پھر بھی میں بارات کے ساتھ ضرور جاؤں گا…!!“ باذلہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
”تھینکس…مزمل بھائی…!!“
#…#
مزمل گاڑی پارک کر نے کے بعد بیزار سا اپنی گاڑی سے اُترا۔
بارات شادی ہال کے بیرونی دروازے تک پہنچ گئی تھی۔
دُلہن کی سہیلیوں نے باسط کا گلاب کی پتیوں سے سواگت کیا تھا۔ ماسی بلقیس اپنے بیٹے کے واری واری جا رہی تھی۔ باذلہ کبھی اپنے بھائی کی طرف دیکھتی اور کبھی مڑ کر مزمل کی طرف دیکھتی جو بارات ہی کی طرف آرہا تھا۔
 ”ہے تو ڈف اینڈ ڈم…پر ہے خوبصورت…“ عشال نے سرگوشی کے انداز میں ماہم کے کان میں کہا ۔

”یہ بھی…؟ہائے اللہ…“ ماہم نے دھیمے لہجے سے کہا۔ وہ مزمل کو دیکھ رہی تھی۔ اُسے عشال کی بات سن کر انتہائی دُکھ ہوا تھا۔
”بڑا حوصلہ ہے بینش کا جو ایک گونگے بہرے بندے سے شادی کر رہی ہے“ شمائل نے ناک چڑھاتے ہوئے ستارہ سے کہا ۔باذلہ نے یہ بات سُن لی تھی۔ بارات شادی ہال میں داخل ہو چکی تھی۔ باذلہ بیرونی دروازے پر مزمل کا انتظار کر رہی تھی۔

”یہ جیمز بونڈ کون ہے“ ستارہ نے جلدی سے شمائل کے کان میں پوچھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ اُسے کوئی جواب دیتی عشال نے صدا لگائی:
”ہیلو مزمل بیگ…!“ مزمل نے اجنبی نظروں کے ساتھ عشال کی طرف دیکھا پھر چند لمحے سوچ کر بولا:
”ہیلو…!“اور باذلہ کی طرف بڑھ گیا۔ ماہم نے زور سے کہنی عشال کو مارتے ہوئے کہا :
”یہ تو بولتا ہے“
”میں نے کب کہا یہ گونگا ہے“ عشال نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
باذلہ اور مزمل بھی شادی ہال میں داخل ہو چکے تھے۔ باذلہ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک کونے میں مزمل کو لے جا کر بولی :
”بھائی…! آپ پلیز رخصتی تک باسط بھائی کے ساتھ ہی رہیں… ہمارے رشتے دار اور یہاں کے لوگ بڑے عجیب سے ہیں…“
”ڈونٹ وری باذلہ…“ مزمل نے شفقت سے باذلہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی اور دولہے کے اسٹیج کی طرف چل دیا۔

برائیڈ ل روم کے باہر سے ماہم اور عشال اُسے دیکھ رہی تھیں تو دوسری طرف ہال کی درمیانی پارٹیشن سے خواتین کی طرف جانے والے دروازے کے پاس سے ستارہ اور شمائل اُس پر نظریں جمائے ہوئی تھیں۔
مزمل جا کر باسط کے برابر میں بیٹھ گیا۔
”میں نے تم سے پوچھا تھا یہ جیمز بونڈ کون ہے“ستارہ نے شمائل سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر پھر سوال کیا۔
”یہ دولہے کا باس ہے…بہت امّیر ہے…میں نے سنا ہے شادی کا سارا خرچہ اِسی نے کیا ہے“ شمائل نے مزمل کو چشم حسرت سے دیکھتے ہوئے ستارہ کو بتایا۔
دوسری طرف عشال نے سینہ تان کر ماہم کو خبر دی:
”یہ ہمارا ریلٹو ہے“ ماہم نے شکی مسکراہٹ سے عشال کو دیکھتے ہوئے کہا:
”چل جھوٹی…ریلٹو اور تمھارا…؟“
”آئی سویئر“ عشال نے یقین دلانے کی کوشش کی پھر بھی ماہم کے مکھڑے پر بے یقینی ہی تھی۔
”کرتا کیا ہے…؟“ ماہم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ابّا بتا رہے تھے۔ بہت بڑا بزنس مین ہے“عشال نے جواب دیا۔

”حکیم چچا آگئے…“ ماہم نے عجلت میں کہا اور ساتھ ہی برائیڈل روم میں گھس گئی۔ عشال نے بھی جلدی سے اُس کی تقلید کی۔ اِس کے برعکس شمائل اور ستارہ اپنی جگہ پر ہی کھڑی رہیں۔
حکیم عاقل انصاری کے ہاتھ میں رجسٹر تھا، وہ دولہے کے اسٹیج کی طرف جا رہے تھے۔ اُن کے ساتھ دُلہن کا باپ اور اُس کے چند قریبی عزیز و اقارب بھی تھے۔ باذلہ فکر مندی سے ہال کی پارٹیشن والی جگہ ستارہ اور شمائل سے تھوڑی دور کھڑی تھی۔
جہاں ایک طرف خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اور دوسری طرف مرد حضرات تھے۔ ننھی سی عمر اور اتنی فکر مندی باذلہ سیکنڈ ایئر کی سٹوڈنٹ ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ وہ اپنے چشمے کے اوپر سے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بوڑھا حالات و واقعات دیکھ رہا ہو۔
”نکاح شروع کرو…“ کفایت حسین دُلہن کے باپ نے دیسی انداز میں کہا۔ اُس کا کہنا حکم یا اجازت کے زمرئے میں نہیں آتا تھا۔
مزمل نے دولہے باسط کی طرف دیکھ کر اُسے اشاروں سے سمجھایا باسط نے سر کو ہاں میں جنبش دی۔
”جی بسم اللہ کریں…“مزمل نے حکیم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”حق مہر کتنا ہوگا؟“دُلہن کے باپ نے یک لخت پوچھا۔ مزمل نے باسط کی طرف دیکھا اچانک اُس کی نظر باذلہ پر پڑی۔ اُس نے کھڑے ہو کر باذلہ کو ہاتھ کے اشارے سے اسٹیج کی طرف بلایا۔ باذلہ تیز تیز قدموں کے ساتھ اسٹیج کی طرف آئی، باذلہ پاس آئی تو مزمل بولا:
”باذلہ…!یہ پوچھ رہے ہیں… حق مہر کتنا ہوگا…!“
” وہی شرعی…“ باذلہ نے جلدی سے جواب دیا۔

”حق مہر شرعی نہیں ہوگا…بلکہ پانچ لاکھ ہوگا“کفایت نے حتمی انداز میں فیصلہ سنایا۔
”خالو جی… میں نے آپ سے پوچھا تھا۔ آپ نے تو اُس وقت جواب دیا تھا وہی شرعی!“ باذلہ نے شکایتی انداز میں کفایت سے کہا۔
”اب بھی میں ہی کہہ رہا ہوں“ کفایت نے سینہ تن کر جواب دیا جیسے اپنا حق مانگ رہا ہو۔ مزمل کو اُسکا انداز اور رویہ پسند نہ آیا تھا۔
اُس نے بڑے اطمینان سے پوچھا:
”حق مہر…کیا ہے؟“کفایت کو کسی ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ اُس نے پریشانی سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا جیسے اُن سے مدد مانگ رہا ہو۔
”حق مہر عورت کا حق ہے…شریعت نے اُس کی کوئی حد مقرر نہیں کی“حکیم صاحب نے اپنا نقطہٴ نظر پیش کیا۔
”اِسی لیے تو میں بھی پانچ لاکھ کہہ رہا ہوں“ کفایت پھر سے جوش میں بولا۔ باذلہ نے بے چارگی سے مزمل کی طرف دیکھا جو پہلے ہی سے باذلہ کو دیکھ رہا تھا۔
باسط سُن تو نہیں پا رہا تھا، لیکن اپنے خالو کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا، اُس نے اشاروں سے باذلہ سے پوچھا کہ خالو کیا بول رہا ہے۔ باذلہ نے اُسے ساری بات سمجھائی باسط نے مزمل کو بازو سے پکڑ کر ہلایا اور اشاروں سے کہا کہ آپ بات کرو ۔
”حق مہر معجل ہوگا یا غیر معجل …؟“ مزمل نے کفایت سے پوچھا۔
”کیا ہوگا؟“ کفایت نے حیرانی سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا۔
حکیم صاحب کے بولنے سے پہلے ہی مزمل پھر بول پڑا :
”معجل مطلب موقع پر ادا کر دینا… اور غیر معجل بعد میں ادا کرنا… فرض کریں میں پانچ لاکھ ابھی ادا کر دیتا ہوں، تو وہ آپ کی بیٹی کو ملے گا، آپکو ہر گز نہیں اور آپ کی بیٹی نکاح کے بعد ہمارے ساتھ جائے گی۔ اُس میں آپ کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ محترم…! حق مہر عورت کی عزت افزائی ہے اُس کی تکریم ہے اِس رشتے کو قائم رکھنے کی شرط نہیں۔
شادی شرطوں پر نہیں کی جاتی اور نہ ہی شرطوں پر چلتی ہے۔ مولوی صاحب آپ نکاح شروع کریں حق مہر چالیس ہزار ہوگا معجل…!“ مزمل نے کفایت کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔ کفایت نے ایک بار پھر حکیم صاحب کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کفایت نے حکیم صاحب سے ایک طرف چلنے کی عرض کی، جو اُنہوں نے مان لی، چند منٹ حکیم صاحب سے مشاورت کے بعد اُس نے کہا :
”حکیم صاحب! آپ نکاح پڑھوا دو…“
نکاح ہوگیا مزمل نے چالیس ہزار نکال کر حکیم صاحب کو تھما دیے کہ وہ دُلہن کے حوالے کر سکیں۔
حکیم صاحب برائیڈل روم کی طرف چلے گئے۔
”مبارک ہو… مبارک ہو…“ کی بے شمار عجیب و غریب آوازیں ہال میں گونج اُٹھیں۔ دولہے کو گلے ملنے اور مبارک باد یں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا مزمل نے اسٹیج سے اُترنے میں ہی عافیت جانی۔ باذلہ نے مشکور نگاہوں سے مزمل کی طرف دیکھا اور عورتوں کی طرف چل دی۔ اُسکی ماں بلقیس پہلے ہی سے عورتوں والی سائیڈ پر تھی ۔
وہ اپنی بچپن کی سہیلیوں اور رشتے دار عورتوں کے ساتھ مگن تھی۔
#…#
حکیم صاحب نے دُلہن بینش کو نکاح پڑھایا اُسے حق مہر دیا اور برائیڈل روم سے نکل آئے۔
”مبارک ہو… بینش …!“ ماہم نے گلے لگتے ہوئے کہا ۔
”واہ جی واہ …تمھاری تو لاٹری لگ گئی…تمھارا ہسبینڈ…ہینڈ سم بھی ہے۔ ساتھ ساتھ ڈف اینڈ ڈم بھی…“
عشال بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہی تھی ۔
ماہم نے اُسے چٹکی کاٹی اور چپ رہنے کا سگنل دیا مگر عشال کہاں ٹلنے والی تھی :
”میرا مطلب ہے… یہ دونوں کلیش سے بچ جائیں گے نہ وہ کچھ بولے گا…اور نہ ہی سنے گا“
”بینش! تمھاری پسند واقعی لاجواب ہے۔ دُلہا بھائی دکھنے میں تو بہت ہی اچھے ہیں“ ماہم نے عشال کو چپ کرواتے ہوئے کہا۔
”باسط ہیں ہی بہت اچھے!“ بینش نے شرماتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔

”اوئے ہوئے…ابھی سے تعریفیں“ عشال کو ایک بار پھر بات کرنے کا موقع مل گیا۔
”کھانا کھُل گیا ہے“ چند آوازیں بُلند ہوئیںَ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی، آنکھوں کو کھانے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔
دُلہن اور اُس کی سہیلیوں کا کھانا برائیڈل روم میں پہنچا دیا گیا تھا۔ دُلہن کی تو بھوک ہی اُڑگئی تھی۔ اُس کی سہیلیوں کے ساتھ عشال بھی کھانے میں مصروف تھی۔
ماہم واش روم گئی تھی، مگر لوٹی نہ تھی۔ عشال کھانا کھاتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہہ دیتی:
”ماہم کا واش روم ہی لمبا ہوگیا ہے“
ماہم ہال کے اُس حصے میں جھانک رہی تھی جہاں مرد حضرات کھانا کھا رہے تھے۔ اُس کی نظریں کسی کو کھوج رہی تھیں۔ نظروں کی کھوج کا سفر جاری تھا پھر اچانک نظروں کو اپنی منزل نظر آگئی۔ مزمل واش روم سے نکل رہا تھا۔
وہ کھانے والی سائیڈ پر جانے کی بجائے ہال کے بیرونی دروازے کی طرف چل دیا۔ ماہم نے دیکھا تو وہ ایک ستون کے پیچھے ہوگئی تاکہ مزمل کو نظر نہ آسکے۔
مزمل کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو کسی کی آواز نے روکا تھا۔
” بھائی…! بھائی“ باذلہ تیز تیز چلتی ہوئی اُس کی طرف آئی۔
”میں کب سے آپ کو فون کر رہی ہوں“باذلہ نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا۔

”کیوں خیریت تو ہے…؟“
”وہ آپ کی گاڑی میں بڑے والا سوٹ کیس ہے وہ نکالنا تھا“ باذلہ نے فون کرنے کی وجہ بتائی۔
”یہ لو گاڑی کی چابی… حنیف کھانا کھالے تو اُسے کہہ دینا وہ نکال دے گا“ مزمل نے باذلہ کو گاڑی کی چابی تھماتے ہوئے کہا۔
”کھانا تو بہت مزیدار ہے…“
”تو جاؤ… کھانا کھاؤ!“
”آپ نے کیوں نہیں کھایا…؟“ باذلہ نے گلہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے…تم جاؤ شابّاش اور کھانا کھاؤ“
آپ! جا کہاں رہے ہیں…؟
”نماز کے لیے۔ ظہر کا وقت ختم ہونے والا ہے“
”نماز کی جگہ تو یہاں بھی ہے“باذلہ نے اطلاع دی۔
”یہاں بہت شور ہے“ مزمل نے بیزاری سے جواب دیا۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan