شریف برادران کی وطن واپسی کا معاہدہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے بارے حتمی فیصلہ نہیں ہوا، ملک قیوم

دوست ملک کی رضامندی کے بعد معاہدہ عدالت میں پیش کرونگا، ایمرجنسی نہیں لگے گی، باوردی صدر کا انتخاب موجودہ اسمبلیاں کریں گی، لاپتہ افراد کی بازیابی اور جامعہ حفصہ آپریشن کے دوران گرفتار افراد کی رہائی کے حوالے سے بھرپور اقدامات کئے جا رہے ہیں، اٹارنی جنرل آف پاکستان کاپریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے پروگرام میٹ دی پریس میں اظہار خیال

جمعرات 16 اگست 2007 16:47

اسلام آباد (ٍٍاردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین16 اگست 2007) اٹارنی جنرل آف پاکستان جسٹس(ر) ملک محمد قیوم نے کہا ہے کہ ابھی نواز شریف اور شہباز شریف کی وطن واپسی کا معاہدہ عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ دوست ملک کی رضامندی کے بعد معاہدہ عدالت میں پیش کر دیں گے۔ ایمرجنسی نہیں لگے گی اور باوردی صدر کا انتخاب موجودہ اسمبلیاں کریں گی۔

مسلم لیگ (ن) میں نہیں تاہم ذاتی حیثیت سے میاں محمد نواز شریف کی عزت کرتا ہوں۔ حکومت کے ساتھ معاہدے پر نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے دستخط خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جن کو جھٹلا نہیں سکتا لاپتہ افراد کی بازیابی اور جامعہ حفصہ آپریشن کے حوالے سے گرفتار افراد کی رہائی کے لئے بھرپور اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے میٹ دی پریس پروگرام میں خطاب کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تو عدالت سے معافی مانگی تھی کہ مجھے نواز شریف اور شہباز شریف کیس سے الگ ہی رکھیں تاہم عدالت نے میری استدعا قبول نہیں کی اور کہا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل پیش ہو رہے ہیں۔ ملک قیوم کے طور پر آپ پیش نہیں ہو رہے ہیں۔ نواز شریف اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان 10 سال کا معاہدہ ہوا ہے اور معاہدے پر نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے دستخط موجود ہیں ۔

اس معاہدے کو عدالت میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تاہم حکومت کے لئے دوست ملک کی بھی رائے لینا ضروری ہے اگر وہ رضامند ہوئے تو معاہدہ عدالت میں پیش کر دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے خلاف کوئی اور ریفرنس یا کیس نہیں لایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ریٹائرڈ جج نے انہیں بتایا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے صدر کے چیف آف سٹاف کی ملاقات ہوئی تھی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایڈہاک ججوں کی تعیناتی اب بھی غیرآئینی اور غیرقانونی سمجھتا ہوں۔ ریفرنس کے دوران اگر حکومت چاہتی تو ایڈہاک ججوں کو فارغ کر سکتی تھی۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ میں ورکنگ ریلیشن شپ ضرور ہونی چاہئے۔ سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان کے حوالے سے ایک سوالک ے جواب میں انہوں نے کہا کہ مخدوم علی خان نے ذاتی مصروفیات کی بنا پر استعفیٰ دیا تھا اور انہیں برطرف نہیں کیا گیا تھا وہ بہت ایماندار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں تاہم انہوں نے لوگوں کے ساتھ زیادہ میل ملاپ نہیں رکھا۔

اس کے برعکس انہوں نے ہر شخص کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ صدر کے باوردی منتخب ہونے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صدر جب اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرائیں گے پہلے تو الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے اس کے بعد عدالتوں میں بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 12اکتوبر 1999ء کو مارشل لاء صرف شریف الدین پیرزادہ کی کوششوں کی وجہ سے نہیں لگ سکا۔

صدر کے انتخابات کا اعلان کرنا صدر جنرل پرویز مشرف کی صوابدید نہیں بلکہ یہ کام الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وکلاء کے انتخابات میں کوئی قیوم گروپ حصہ نہیں لے رہا بلکہ اے کریم ملک کا گروپ حصہ لے گا اور پاکستان بار کونسل کا چیئرمین ہونے کے ناطے اس میں دخل نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ کوئی سرکاری ملازم نہ تو صدر بن سکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے تاہم جنرل پرویز مشرف کو سرکاری ملازم ہونے کے باوجود صدر منتخب ہونے کی اجازت پارلیمنٹ نے دی ہے جو صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ سپریم کورٹ کے 3 اور ہائی کورٹ کے دو فیصلوں کی روسے صدر دوبارہ باوردی منتخب ہو سکتے ہیں۔