مستقبل میں نیب، ایف آئی اے اور پولیس آئندہ منصب پر موجود کسی وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء، ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور ارکان صوبائی اسمبلی کو بدعنوانی اور مجرمانہ الزامات پر اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکے گا، مجوزہ مصالحتی آرڈیننس

جمعرات 4 اکتوبر 2007 23:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4اکتوبر۔2007ء) مجوزہ مصالحتی آرڈیننس کے مطابق مستقبل میں نیب، ایف آئی اے اور پولیس آئندہ منصب پر موجود کسی وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء، ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور ارکان صوبائی اسمبلی کو بدعنوانی اور مجرمانہ الزامات پر اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکے گا، جب تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان پر مشتمل 16 خصوصی کمیٹی برائے اخلاقیات کے ارکان ان الزامات کی تحقیقات نہ کرلیں۔

مجوزہ آرڈیننس کے مطابق اس بڑی سیاسی پیشرفت کے ذریعے عملاً پولیس، ایجنسیوں اور عدالتوں کے وہ اختیارات اور کردار ختم کر دیا جائیگا جس کی رو حکومتی و اپوزیشن کے عوامی نمائندوں کیخلاف تحقیقات اور ان پر مقدمے چلائے جا سکتے ہیں، ماضی، حال اور مستقبل کے سیاستدانوں کو بھی ایک قسم کی معافی مل جائیگی۔

(جاری ہے)

اس نئے مسودہ قانون کے مطابق سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور دیگر عہدیدار بھی 17 نومبر 1999ء سےء قبل کے کسی اقدام پر جوابدہ نہیں ہونگے، چنانچہ اس آرڈیننس کے مطابق 18 اکتوبر کو وطن واپسی پر بینظیر اور آصف زرداری کو گرفتار نہیں کیا جائیگا۔

2007ء کے انتخابات کے شفاف اور آزادانہ ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کے طور پر صدر نے 1976ء کے عوامی نمائندی کے ایکٹ میں اس بڑی ترمیم کی بھی منظوری دیدی ہے جس کی رو سے ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے انتخابی مقابلے میں شامل تمام امیدواروں کو نتائج کی ایک کاپی دی جائیگی تاکہ ماضی کی طرح رات گئے نتائج کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔ اس غیر معمولی آرڈیننس کے اجراء کے بعد نیب یا کوئی دوسرا ادارہ مستقبل کے کسی وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، منصب کے حامل کے وزراء، ارکان اسمبلی، سنیٹرز اور ارکان صوبائی اسمبلی کو بدعنوانی کے الزامات پر گرفتار نہیں کیا جا سکے گا، پارلیمانی کمیٹی ہی الزامات کے بعد اس امر کا فیصلہ کریگی کہ آیا اسے گرفتار کیا جائے یا نہیں جبکہ اس کمیٹی کی قیادت حکومت جماعت کریگی اور اس کا سربراہ کا انتخاب خود اسپیکر کریگا۔

صوبائی ارکان اسمبلی کی گرفتاری کا فیصلہ صوبائی ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی برائے اخلاقیات کریگی جس میں اپوزیشن اور سرکاری بینچوں سے برابر کے ارکان شامل ہونگے، اس آرڈیننس سے سب سے پہلے مستفید ہونے والوں میں بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کے دیگر ارکان شامل ہوں گے جو کہ اپنے خلاف بدعنوانی کے کیس داخل ہونے کے بعد سے ملک سے فرار ہیں۔

آرڈیننس کے مسودے کے مطابق 17 نومبر 1999ء سے قبل کے تمام بدعنوانی کے کیسز ختم کر دیئے جائیں گے اور عدالتوں نے غیر حاضری میں جو سزائیں سنائی ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائیگا۔ اس کے علاوہ 16 نومبر 1999 کو نیب کی تشکیل سے قبل سیاستدانوں اور دیگر کیخلاف رجسٹر کئے گئے بدعنوانی اور مجرمانہ اقدامات کے کیسز بھی ختم کئے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے زیادہ اہم ان عدالتی فیصلوں کو ناقابل عمل قرار دینا ہے جو غیر حاضری میں جاری کئے گئے۔