نگران حکومت 16 نومبر کو حلف اٹھائے گی، غلام سرور خان ،انتخابی مہم کے دوران جلسے جلوسوں پر پابندی نہیں ہونی چاہئے، وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز کا نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال

پیر 22 اکتوبر 2007 22:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اکتوبر۔2007ء) وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز غلام سرور خان نے کہا ہے کہ عام انتخابات سے قبل جو نگران حکومت تشکیل دی جانی ہے اس میں سیاسی لوگوں کو نہیں ہونا چاہئے، 16 نومبر کو نگران حکومت حلف اٹھائیگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی کے دور حکومت میں کبھی بھی بلدیاتی اداروں کے الیکشن نہیں ہوئے اس لئے یہ جماعت اس نظام کے خلاف ہے حالانکہ نواز شریف کے دور حکومت میں بلدیاتی ادارے بحال رہے۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت کے بیان کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر آئندہ الیکشن سے قبل لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کا اپنا نقطہ نظر ہے میں سمجھتا ہوں کہ انتخابی مہم کے دوران جلسے جلوسوں پر پابندی نہیں ہونی چاہئے البتہ ریلی پر پابندی ضروری ہے اور سیاسی لیڈروں کو سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد جلسہ عام میں جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ خود کش حملوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جو کچھ ہو رہا ہے برا ہو رہا ہے جبکہ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے کہا کہ نگران حکومت میں ان افراد کو شامل کیا جائے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہو۔ بلدیاتی اداروں کو توڑنا اس لئے ضروری ہے کہ اٹک، جہلم، گجرات اور راولپنڈی کے ناظمین کے قریبی رشتہ دار اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں۔

ان حالات میں شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے ماتحت تمام انتظامیہ ہے اور وہ سرکاری وسائل استعمال کریں گے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بینظیر بھٹو کے کراچی قافلے کے دوران سٹریٹ لائٹس بند تھیں۔ ہمارے کارکنوں نے جن آدمیوں کو پکڑ کر پولیس کے ڈی آئی جی کے حوالے کیا ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی کچھ معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت کے لیڈر کس بنیاد پر اے پی سی بلا رہے ہیں جب ایک جماعت کے لیڈر نواز شریف کو دو دفعہ جلا وطن کیا گیا تو یہ جماعت خاموش رہی میں سمجھتا ہوں کہ شفاف الیکشن کیلئے ماحول بہتر بنانا ہو گا اور ساری جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن نہیں ہو سکتے جبکہ وزارت داخلہ سندھ کے مشیر وسیم اختر نے کہا کہ بینظیر بھٹو پر ہونے والے خود کش حملہ کی تحقیقات جاری ہیں اور صحیح سمت کیطرف جا رہی ہیں اور جو لوگ سٹریٹ لائٹس بند ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ نجی ٹی وی چینل کی فٹیج نکال کر دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا تو مزید حالات خراب ہو جاتے اسلئے میں کہتا ہوں کہ ساری جماعتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا اور جو 10 نکاتی فارمولا آیا ہے اس پر عمل کرنا ہو گا ورنہ الیکشن مہم خراب ہو گی خود کش حملوں کو روکنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کا حصہ ہیں، نگران حکومت میں ہمیں اعتماد میں لیا جائیگا جب نگران حکومت بنے گی تو سامنے آجائیگی میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ سیاسی لوگوں کو نگران حکومت میں نہیں ہونا چاہئے جبکہ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما فرید پراچہ نے کہا کہ ایکٹ نمبر118 اگست کو کراچی میں چلایا گیا اور اب ایکٹ نمبر 2 کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوسوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ہم کس طرح ان لوگوں کے ساتھ اے پی سی میں بیٹھ سکتے ہیں جن کو وجود آئینی طور پر متنازعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک 12 مئی کے مجرم نہیں پکڑے گئے کیا کراچی میں مارے جانے ولاے لوگ چڑیاں تھیں، ہم بھی لسانی گروہ کی طرف سے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اسلام میں خود کش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن آنے سے قبل پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ بندربانٹ مذاکرات ہو رہے ہیں یہ الیکشن کرانے والا ریفری جنرل پرویز مشرف ایک جماعت کیلئے ووٹ مانگ رہا ہے، ایسے حالات میں اس کی موجودگی میں الیکشن شفاف نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ متوقع الیکشن میں اس لئے پابندیاں لگائی جا رہی ہیں کہ عوام ان کی امریکہ نوازی، مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں اور اس جماعت مسلم لیگ (ق) کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان حکمرانوں نے عوام پر لاٹھیاں برسائیں اور لوگوں کو جیلوں میں ڈالا حکمران اپنی 8 سالہ ناکامی کو مانیں۔