تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی، معزول چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے جانے والوں پر پولیس کا وحشیانہ تشدد ،صحافیوں وکلاء اور سول سوسائٹی کے افراد سمیت متعدد زخمی،خواتین سمیت 65افرادکوگرفتار کر لیا گیا،پولیس کی کارروائیاں ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتی،معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کابیان۔اپ ڈیٹ

پیر 17 دسمبر 2007 21:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17دسمبر۔2007ء) پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی ریلی کے دور ان سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات کیلئے جانے والے طلباء اور سول سوسائٹی کے افراد پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا اور کوریج کیلئے آنے والے صحافیوں کو خاص طورپرتشدد کا نشانہ بنایاگیا ۔تشدد کے نتیجے میں صحافیوں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے ۔

جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ تہترکے آئین کی اصل حالت میں بحالی کی جدوجہد آخری دم تک جاری رہے گی،پولیس کی کارروائیاں ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتی۔پیر کو سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے آبپارہ چوک میں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں سینکڑوں طلباء اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی مظاہرے کے بعد تمام شرکاء پر امن طورپر سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ کی طرف جارہے تھے کہ میریٹ ہوٹل کے قریب ایوب چوک میں پولیس کی بھاری نفری نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو اس دور ان طلباء اور سول سوسائٹی کے افراد نہ رکے اور عدلیہ کے حق میں اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔

(جاری ہے)

اس دوران پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا اور آنسو گیس پھینکی جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی اور بے ہوش ہوگئے ۔ پولیس نے اس موقع پر کوریج کیلئے آنے والے صحافیوں پر بھی وحشیانہ تشدد کیا ۔جس سے متعدد صحافی زخمی ہوگئے ۔ زخمی صحافیوں میں نجی ٹی وی کے رپورٹر عثمان احمد، مقامی اخبار کے ایڈیٹر معظم رضا تبسم اور فوٹو گرافر راجہ ریاض کے علاوہ دیگربھی شامل ہیں ۔

نجی ٹی وی کے مطابق اس کے رپورٹر عثمان خان پہلے اندھا آنسو گیس کی زد میں آ کر نڈھال ہوگئے بعد میں افسران کے حکم پر پولیس نے ان پر وحشیانہ تشدد شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئے اور انہیں فوری طورپر پولی کلینک کے ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں بے ہوشی کی حالت میں پہنچایا گیا ۔پولیس نے اس موقع پر 65 صحافیوں طلباء اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو گرفتار بھی کر لیا ۔

اور کسی کو ججز کالونی جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔واضح رہے کہ حکومتی وزراء اور ترجمان مسلسل اس موقف کا اظہار کررہے ہیں کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آزاد ہیں۔ گرفتار کئے جانے والوں میں وکلاء ایکشن کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد کے صدر توفیق آصف، ملک یاسر ایڈووکیٹ، اظہر من اللہ ایڈووکیٹ کی اہلیہ غزالہ من اللہ ایڈووکیٹ کے علاوہ 20 خواتین سمیت وکلاء، سول سوسائٹی اور تحریک انصاف کے درجنوں کارکنان شامل ہیں جنہیں تھانہ سیکرٹریٹ میں پہنچا دیا گیا توفیق آصف نے نجی ٹی وی کوبتایا کہ پولیس انہیں تھانے میں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ادھر پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے آٹھ اہلکاروں کو بھی پولیس کلینک ہسپتال لایا گیا پولیس کے مطابق مظاہرے کے دور ان پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔

گرفتاریوں کے بعد وکلاء، سول سوسائٹی، تحریک انصاف کے کارکنوں نے تھانہ سیکرٹریٹ کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا تاہم اس دور ان کسی نا خوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی نجی ٹی وی کے مطابق موقع پر موجود مجسٹریٹ نے صحافیوں کو ٹارگٹ کر نے کاحکم دیا تھا ۔بعد ازاں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلاء،میڈیا ،سول سوسائٹی اور عوام کے نام جاری کئے گئے اپنے پیغام میں کہاہے کہ انیس سو تہتر کے آئین کی اصل حالت میں بحالی اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد آخری دم تک جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے کی جانے والی پر تشدد کاروائیاں ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتی ۔معزول چیف جسٹس نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں امن و امان کی یہ حالت ہے کہ ایک ہفتے میں کوئٹہ، نوشہرہ اور کوہاٹ میں بم دھماکے ہو چکے ہیں لیکن پولیس کو خواتین کی گرفتاری اور طلباء،، وکلاء اور صحافیوں پر تشددکے لئے تعینات کر دیا گیا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کا مقصد صرف چیف جسٹس ،ججوں اور وکلاء کو قید میں رکھنا ہے جبکہ خطرناک مجرم باآسانی پولیس کی تحویل سے فرار ہو رہے ہیں اور انکے لئے صرف دو یا تین اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ساری چیزیں حکومت کی کمزوری اور گھبراہٹ کو ظاہر کرتی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا مارشل لاء یا ایمرجنسی واقعی اٹھالی گئی ہے ۔