مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں وفد کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات ،ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہ خیال،دینی قوتوں کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر آگے بڑھناچاہیے،ملاقات کا مقصد ایم ایم اے کی بحالی یا اس طرز کا کوئی اتحاد قائم کرنا نہیں ‘مولانا فضل الرحمن،اگر الیکشن کمیشن آئین کی دفعہ 62/63 پر عمل درآمد کرتا تو پورے ملک میں دھاندلی کا شور نہ ہوتا ‘ سراج الحق کی میڈیا سے گفتگو

پیر 26 مئی 2014 22:11

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26مئی۔2014ء) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد نے جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات کی ،وفد میں حافظ حسین احمد ، مولانا امجد خان ، شفقت رحمن و دیگر شامل تھے ،دونو ں رہنماؤں نے ملاقات میں ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔

اس موقع پر نائب امراء جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس ، راشد نسیم ، میاں محمد اسلم ، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، حافظ ساجد انور، سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم و دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔ ملاقات کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دینی جماعتیں ایک حقیقت ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا اور اس کی اول و آخر منزل اسلام ہے ۔ جو لوگ ملک میں آئین اور نظریہ پاکستان سے بے وفائی کر رہے ہیں وہ ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے ۔ آئین کی اسلامی دفعات سے انحراف کرنے والون نے ملک کو غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کی دلدل میں دھکیل دیاہے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعہ 62/63 پر عمل درآمد کیا ہوتا تو آج پورے ملک میں دھاندلی کا شور نہ ہوتا ۔وزیراعظم کے بھارت کے دورہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہاکہ وزیراعظم پاکستانی قوم کے ترجمان بنیں ۔ مسئلہ کشمیر اور بھارت کی آبی جارحیت پر بھارتی سرکار سے بات ہونی چاہیے اور وزیراعظم اپنے دورہ میں تحریک حریت کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں ۔

سراج الحق نے کہاکہ دینی قوتیں پاکستان کو اسی نظریے اور عقیدے پر قائم دیکھنا چاہتی ہیں جس نظریے کی بنیاد پر اسے قائم کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ اس دھرتی کو 65سال سے اسلامی نظام سے محروم رکھا گیاہے ۔ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرا گیا ہے اور ہمارے بچوں کو مقروض بنایا گیاہے ۔قبل ازیں مولانافضل الرحمن نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم پاک بھارت تنازعات کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں اور پاکستانی قوم کے جذبات سے بھی آگاہ ہیں ۔

ان سے اچھی توقعات رکھنی چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف کا دورہ محض خیر سگالی دورہ ہے ۔ اس موقع پر کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں ہوں گے ۔ انہو ں نے کہاکہ ہمیں بھارت کی نئی حکومت سے اچھی توقعات رکھنی ہیں لیکن کسی خوش فہمی کاشکار نہیں ہونا چاہیے ۔ انہو ں نے کہاکہ میری منصورہ آمد کامقصد دینی جماعتوں میں رابطوں کا آغاز اور فروغ ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پاکستان کو عملاً مغربی ایجنڈے اور تہذیب کے تابع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

فحاشی و عریانی اور بے حیائی کو فروغ دیا جارہاہے ۔ اسلامی ماحول کو ختم کیا جارہاہے اور قوم کو فرقہ بندیوں میں تقسیم کر کے تشدد پسند قوتوں کی سرپرستی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسلام اعتدال کا دین ہے اور پور ی انسانیت کے لیے دوستی کا پیغام ہے ۔انہوں نے کہاکہ دینی قوتوں کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر آگے بڑھناچاہیے۔انہوں نے کہاکہ اس ملاقات کا مقصد ایم ایم اے کی بحالی یا اس طرز کا کوئی اتحاد قائم کرنا نہیں بلکہ رابطوں کو بڑھاناہے۔