ٹیکسوں کی وصولی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی کارکردگی ناقص ہے ،مراد علی شاہ

وفاق ہر 15 دن کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر وصول ہونے والے ٹیکسوں میں سے صوبوں کے حصے کی رقم ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کرے ،مشیر خزانہ سندھ جی آئی ڈی ایس فوری طور پر ختم کرکے 131 ارب روپے صوبوں کوگیس کی پیداوار کے تناسب سے تقسیم کیے جائیں وفاق صوبوں کو ہر 15 دن کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر اپنے حصے کی رقم ٹرانسفر کرے ۔ رقم تاخیر سے ملنے کے باعث سندھ حکومت اوور ڈرافٹ میں چلی جاتی ہے ،پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

ہفتہ 14 جون 2014 19:59

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14جون 2014ء) حکومت سندھ نے ٹیکسوں کی وصولی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس خراب کارکردگی پر عوام کو جواب دے ۔ وفاق ہر 15 دن کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر وصول ہونے والے ٹیکسوں میں سے صوبوں کے حصے کی رقم ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کرے ۔ گیس انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس(جی آئی ڈی ایس) فوری طور پر ختم کرے اور اس سیس کی مد میں وصول کیے گئے 131 ارب روپے صوبوں کوگیس کی پیداوار کے تناسب سے تقسیم کرے ۔

آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں اشیاء پر سیلز ٹیکس بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے ۔ یہ مطالبات ہفتہ کو وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے خزانہ سید مراد علی شاہ نے چیف منسٹرہاؤس میں منعقدہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیے ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن ، وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاولہ ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات محمد وسیم ، سیکرٹری محکمہ خزانہ سہیل راجپوت ، سندھ ریونیو بورڈ کے چیئرمین اور سیکرٹری محکمہ اطلاعات ذوالفقار شالوانی بھی موجود تھے ۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران سندھ حکومت کوشش کرے گی کہ 25 ہزار کے بجائے 40 ہزار نئی ملازمتیں فراہم کرے ۔ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ، جس کی وجہ سے ہمیں نہ صرف اپنے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑی بلکہ دیگر معاملات چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔

اپنی خراب کارکردگی پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) اور وفاقی وزارت خزانہ کو عوام کے سامنے جواب دینا ہو گا ۔ رواں سال ہمیں وفاق سے 409 ارب روپے ملنے تھے لیکن وفاق ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکا ۔ صوبوں کے حصے پر نظرثانی کی گئی اور سندھ کو 327 ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس میں سے بھی اب تک 60 ارب روپے کا شارٹ فال ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 409 ارب روپے کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنایا تھا لیکن ہمیں ابھی تک 267 ارب روپے ملے ہیں ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاق صوبوں کو ہر 15 دن کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر اپنے حصے کی رقم ٹرانسفر کرے ۔ رقم تاخیر سے ملنے کے باعث سندھ حکومت اوور ڈرافٹ میں چلی جاتی ہے اور اس پر اسٹیٹ بینک کو سود ادا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ گیس انفرا سٹرکچر سیس آئین کے آرٹیکل 161 اور 172 کی خلاف ورزی ہے ۔

3 صوبے سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا گیس میں خود کفیل ہیں اور ان صوبوں میں گیس کا انفرا سٹرکچر بھی موجود ہے ۔ یہ ٹیکس ایک ایسے صوبے میں گیس انفرا سٹرکچر کی تعمیر کے لیے وصول کیا جا رہا ہے ، جہاں گیس پیدا ہی نہیں ہوتی ۔ یہ تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔ قومی مالیاتی کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈ کے تحت گیس ڈویلپمنٹ سرچارج پہلے ہی براہ راست صوبوں کو دیا جاتا ہے ۔

گذشتہ تین سالوں کے دوران مذکورہ سیس کی مد میں 131 ارب روپے جمع کیے گئے ۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نہ صرف اس سیس کی وصولی ختم کی جائے بلکہ وصول شدہ رقم بھی صوبوں کو گیس کی پیداوار کے تناسب سے تقسیم کی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں اشیاء پر سیلز ٹیکس بھی صوبوں کے حوالے کیا جائے اور ان کی وصولی کا انہیں مکمل اختیار دیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے سندھ کے غیر ترقیاتی ( ریونیو ) بجٹ کی مد میں 436 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، جو رواں سال کے 355 ارب روپے کے مقابلے میں 81 ارب روپیہ زیادہ ہے ۔ اس اضافے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے ’’ سروس ڈلیوری ‘‘ پر توجہ دی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

یہ اضافہ زیادہ تر ’’ نان سیلری ‘‘ بجٹ میں کیاگیا ہے ، جو عمارتوں کی مرمت اور مینٹی ننس ، اسپتالوں اور اسکولوں کے
آپریشنل اخراجات اور دیگر ضرورتوں پر خرچ ہو گا ۔ مرمت اور مینٹی ننس کے لیے آئندہ سال 9 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ، جو رواں سال کے بجٹ کے مقابلے میں 4.5 ارب روپے زیادہ ہے ۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ سندھ حکومت کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے آئندہ سال 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، جو رواں سال کے 9.7 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 16.3 ارب روپے زیادہ ہیں ۔

بجلی کے بلوں کی وجہ سے ہمیں ہر سال بجٹ سے ہٹ کر رقم نکالناپڑتی تھی ، جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی تھیں لیکن ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم نے بجلی کے بلوں کے لیے اتنی رقم مختص کی ہے ، جتنی دیگرصوبوں نے نہیں کی لیکن ہم اوور بلنگ کے پیسے نہیں دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ جامعات کو 5 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ دی جائے گی ۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آئندہ سال کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی ) 168 ارب روپے کا ہو گا ، جو رواں سال کے 185 ارب روپے کے مقابلے میں 17 ارب روپے کم ہے لیکن ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ رواں سال صرف 115ارب روپے خرچ ہو سکیں گے ۔ لہذا ان کے مقابلے میں 168 ارب روپے کا اے ڈی پی مناسب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے 42 ارب روپے کی ترقیاتی اسکیمیں رکھی گئی ہیں ۔

ہم نے صوبائی بجٹ میں پانی کے منصوبے کے ۔ 4 اور سیوریج کے منصوبے ایس ۔ 3 کے لیے بھی رقم رکھی ہے اور وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ بھی ان منصوبوں کے لیے اپنے حصے کی رقم ادا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے بس ریپڈ ٹرانزٹ پروجیکٹس کے لیے حکومت سندھ نے 3 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔ یہ کسی بھی منصوبے کے لیے مختص کی جانے والی سب سے زیادہ رقم ہے ۔

ایک منصوبہ یلو لائن بس ٹرانزٹ کا ہے ، جو چین کی ایک کمپنی کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں مکمل کیا جائے گا جبکہ دوسرا منصوبہ گرین لائن بسوں کا ہے ۔ اس منصوبے کے لیے حکومت سندھ نے اپنے اے ڈی پی میں 3 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔ یہ دوسال میں مکمل ہو گا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ اگر اس منصوبے کے لیے زیادہ رقم درکار ہوئی تو وہ بھی سندھ حکومت دے گی ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھ کے ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کی کارکردگی قابل تحسین ہے ۔ رواں سال کے دوران 91 ارب روپے کی محصولاتی آمدنی کے ہدف میں سے 89 ارب روپے ہم وصول کر لیں گے ۔ البتہ سندھ حکومت کی غیر محصولاتی آمدنی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ اس کی وجہ سپریم کورٹ کی طرف سے زمینوں کی لیز اور میوٹیشن پر پابندی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 8 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ دینے کا جو اعلان کیا ہے ، اس کے لیے ہم وفاقی حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کی فہرست دیں گے اور اس رقم سے 22 منصوبے مکمل کرلیں گے ۔ اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات محمد وسیم نے بتایا کہ مالیاتی گنجائش ( فسکل اسپیس ) نہ ہونے کی وجہ سے رواں سال کے مقابلے میں آئندہ سال کے اے ڈی پی کے لیے 17 ارب روپے کم رکھے گئے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ رواں سال کے 115 ارب روپے کے مقابلے میں ہم آئندہ سال پورے 168 ارب روپے خرچ کر سکیں ۔

انہوں نے کہاکہ چھوٹی اسکیموں کو صوبائی اے ڈی پی سے نکال کر ضلعی اے ڈی پی میں ڈال دیا گیا ہے اور اسی لیے ضلعی اے ڈی پی میں 5 ارب روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے اے ڈی پی سے 21 جاری اسکیموں کو نکال دیا گیا ہے اور ان کے لیے بجٹ میں علیحدہ سے ’’ بلاک ایلوکیشن ‘‘ کردی گئی ہے ۔ اب ان اسکیموں کے لیے پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں رہا اور یہ اسکیمیں آئندہ سال مکمل ہو جائیں گی ۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کے اے ڈی پی میں جو نئے اور اہم منصوبے شامل کیے گئے ہیں ، ان میں خصوصی بچوں کے لیے مراکز کی تعمیر ، سندھ کے 200 اسپتالوں میں ڈائیلائسز کی سہولت کی فراہمی ، ایس آئی یو ٹی میں لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کے قیام ، رائس کینال میں گندے پانی کی نکاسی کو ختم کرنے ، تھر پارکر میں 200 نئے آر او پلانٹس کی تنصیب اور ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے شامل ہیں ۔

اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت نے پچھلے پانچ سال کے دوران غریب لوگوں کی براہ راست مالی معاونت کے لیے خاطرخواہ بجٹ رکھا لیکن گذشتہ دو سال سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ؟ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں وفاقی حکومت نے اچھی خاصی رقم مختص کی ہے ۔ سندھ حکومت نے آئندہ سال یونین کونسلز کی سطح پر غربت کے خاتمے کے پروگرام کے لیے 1.3 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :