ایف بی آرکی طرف سے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کیلئے گزشتہ 3سال سے ٹیکس وصولیوں کے غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا انکشاف،ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 3 سال سے ریونیو کلیکشن بڑھانے کی غرض سے نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک کی مبینہ ملی بھگت سے نیشنل بینک کے اربوں روپے کے ریفنڈ روک رکھے ہیں ، روکے جانے والے ریفنڈز کی اس رقم کو ایف بی آر کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان سے حاصل کردہ قرضہ ظاہر کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایاجارہا ہے؛ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے وزیراعظم اور نیب کو لکھے جانے والے لیٹرمیں انکشاف

اتوار 24 اگست 2014 20:38

ایف بی آرکی طرف سے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کیلئے گزشتہ 3سال ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24اگست۔2014ء) فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی طرف سے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 3سال سے ٹیکس وصولیوں کے غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا انکشاف ہوا ہے جس کے خلاف وزیراعظم کو لیٹر لکھ دیا گیا ہے۔ یہ انکشاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے وزیراعظم اور نیب کو لکھے جانے والے لیٹر میں کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے گزشتہ 3 سال سے ریونیو کلیکشن بڑھانے کی غرض سے نیشنل بینک آف پاکستان اور اسٹیٹ بینک کی مبینہ باہمی ملی بھگت سے نیشنل بینک آف پاکستان کے اربوں روپے کے ریفنڈ روک رکھے ہیں اورریفنڈز کو ریونیو بڑھانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایف بی آر کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کے ساتھ ریفنڈز کی اس رقم کو بطور قرضہ تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قرضے کے طور پر اس روکے جانے والے ریفنڈ کی رقم پر زرتلافی کے طور پر سال 2011 سے لے کر 2013 تک 3 سال کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کو 16 ارب روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔ دستاویز میں لگائے جانے والے الزامات میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ایل ٹی یو کراچی کی طرف سے سال 2011 اور سال 2012 کے دوران نیشنل بینک آ ف پاکستان کو ریفنڈ جاری نہیں کیے اور روکے جانے والے ان ریفنڈزکو خودساختہ طور پر ریونیو کلیکشن بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ روکے جانے والے ریفنڈز کی اس رقم کو ایف بی آر کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان سے حاصل کردہ قرضہ ظاہر کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایاجارہا ہے کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے زرتلافی کے طور پر نیشنل بینک آف پاکستان کو اس قرضے پر 18 فیصد کے حساب سے مارک اپ ادا کا جارہا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ وزیراعظم کو بھجوائے جانے والے لیٹر میں کہا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) قرضہ حاصل کرنے والا ڈپارٹمنٹ نہیں ہے اور ایف بی آر کی طرف سے بہت زیادہ کمرشل شرح سود پر اس قسم کا قرضہ لینا غیر قانونی اقدام ہے۔

لیٹر میں کہا گیا کہ اگر ایف بی آر کوقرضے کی ضرورت تھی تو یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمے داری تھی کہ وہ ایف بی آر کے لیے قرض کا انتظام کرتا اور اس پر سود ایف بی آر کی طرف سے لیے گئے قرض کی شرح سے بھی نصف پر ہوتا۔ لیٹر میں انکشاف کیا گیاکہ گزشتہ 3 سال کے دوران نیشنل بینک آف پاکستان کے ریفنڈز 25 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں اور گزشتہ 3 سال کے دوران ایف بی ا?ر کی طرف سے پیش کی جانے والی ٹیکس وصولیوں کے غلط اعدادوشمار کی بڑی وجہ بھی یہی ریفنڈز ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔

لیٹر میں انکشاف کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس غیر قانونی کام پر گزشتہ 3 سال کے دوران کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس معاملے پر گزشتہ 3 سال سے مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے نیشنل بینک آف پاکستان کے بارے میں اپنی گزشتہ 3 سال کی آڈٹ رپورٹس میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔