جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرے گا،چاہے وہ دباؤ سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور،عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں، جج اپنے مناصب کے حلف لیتے ہوئے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے کا اعادہ کرتے ہیں، چیف جسٹس ناصرالملک نے جس یکسوئی تندہی و محنت کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے،عوام ، سائل ، فریقین مقدمہ اور وکلا اس بات کا مکمل طورپراحساس نہ کر پائیں کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ،چیف جسٹس ناصر الملک کوعدالت کے اندراور باہرقریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، چیف جسٹس نے اپنے فرائض کے ادائیگی کے دوران ہر حالت میں عدالت کے وقار اور ساکھ کو ملحوظ رکھا ہے
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ کا چیف جسٹس ناصر الملک کے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب
جمعرات 13 اگست 2015 14:22
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرے گا،چاہے وہ دباؤ سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور،عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں، جج اپنے مناصب کے حلف لیتے ہوئے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے کا اعادہ کرتے ہیں، چیف جسٹس ناصرالملک نے جس یکسوئی تندہی و محنت کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے،عوام ، سائل ، فریقین مقدمہ اور وکلا اس بات کا مکمل طورپراحساس نہ کر پائیں کہ جج کا عہدہ پھولوں کی سیج نہیں ،چیف جسٹس ناصر الملک کوعدالت کے اندراور باہرقریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، چیف جسٹس نے اپنے فرائض کے ادائیگی کے دوران ہر حالت میں عدالت کے وقار اور ساکھ کو ملحوظ رکھا ہے۔
(جاری ہے)
میں اس موقع پریہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے جب بھی مقدمات سے ہٹ کر کسی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، میں نے بلاجھجک چیف جسٹس ناصرالملک کی رائے سے استفادہ کیا ہے اور انھوں نے بھی کمال فراخ دلی سے ایک شفیق سینئر کے طور پر اپنی رائے دی ہے،انھوں نے بہت کٹھن اور پیچیدہ قانونی معاملات کو بہت خوبی سے سلجھایا ہے، جس سے ان کی علمی اور عقلی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔
قانونی فیصلوں میں زبان پر ان کی دسترس اور اظہار رائے پیچیدہ معاملات کو بھی عام فہم زبان میں بیان کرنے کی قدرت کا عکاس ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آج اس مختصر وقت میں فاضل چیف جسٹس کی ان تمام خدمات کا ذکر کرنا نہ تو مقصود ہے اور نہ ہی ممکن۔تاہم ان کے چند فیصلوں کا حوالہ دینا ضروری ہے، جن سے ان کی قانونی مہارت ،دسترس اور علمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بطور چیف جسٹس، انھوں نے محمد ظفر علی کے مقدمے میں سرکاری ملازمین کی سنیارٹی کے بارے میں اور محمد رضا حیا ت حراج کے مقدمے میں الیکشن معاملات میں ٹریبونلز کے احکامات کے بارے میں جو فیصلے دیے ہیں، ان کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ ان کے علاوہ درانی سرامکس کے مقدمے میں بھی انھوں نے ٹیکس اور فیس کی تفریق نمایاں انداز میں بیان کی ہے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو منظر عام پر نہیں آئے اور میڈیااور عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنے گو کہ ان مقدمات کی اہمیت بہت ہے۔ جن مقدمات میں فاضل چیف جسٹس نے اہم آئینی معاملات اور عوام کی دلچسپی کے معاملات میں فیصلے سنائے ہیں وہ تو پہلے ہی عوام کے علم میں ہیں؛ جیسا کہ حالیہ آئینی فیصلہ، جس میں آئینی ترامیم کے بارے میں تاویل پیش کی گئی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں چیف جسٹس ناصرالملک نے جس یکسوئی تندہی اور محنت کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ چیف جسٹس کو آج اس عدالت میں 10 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے ۔اس دورانیہ میں ہماری عدلیہ نے بہت طویل مسافت طے کی ہے اورکئی مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے۔ اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ عدالتیں آئین اور قانون کی پابند ہوتی ہیں۔ عدالتوں کے جج اپنے مناصب کے حلف لیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے ہے کہ وہ آئین کا دفاع اور تحفظ کریں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عدالتیں اور جج آئین اور قانون ہی کی بنا پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ فیصلے سراہے جاتے ہیں اور بعض اوقات ہدفِ تنقید بھی بنتے ہیں؛ کیونکہ عدالتیں اپنا کام کھلی عدالت میں سر انجام دیتی ہیں، اس لیے ان کی کارروائی اور فیصلے عوام اور میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ اُن فیصلوں پر بحث، تجزیے اور تبصرے بھی ہوتے ہیں اور یہ عوام کا حق ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کریں، لیکن بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ کرنے والے نے یا تو عدالتی فیصلہ پڑھا نہیں یا اگر پڑھا ہے تو اسے سمجھا نہیں۔ تبصرہ نگار، وکلا اور عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تن دہی اور نیک نیتی سے عدالتی فیصلوں کوآسان اور عام فہم انداز میں عوام الناس تک پہنچائیں کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے۔فاضل چیف جسٹس کے بہت سے فیصلے بطور عدالتی نظائر پڑھے جائیں گے اور ان فیصلوں سے آنے والے جج ان اور وکلاء استفادہ کریں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے 6 سال سے زائد کا عرصہ فاضل چیف جسٹس کے ساتھ جونےئر رفیقِ کار کے طور پر گزارا اور مجھے اُن کی بلند قانونی اور آئینی صلاحیتیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُنھوں نے جو بھی فیصلے کیے وہ قانون پر مبنی تھے نہ کہ ذاتی یا عوامی رائے پر۔ ایک جج کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دباؤ قبول نہیں کرے گاچاہے وہ دباؤ سماجی رائے کا ہو یا کوئی اور۔متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
لاہور میں پولیس اہلکار نے گولی مارکرخودکشی کرلی
-
ملکی معیشت کو صحیح سمت پر لیجانے کیلئے کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی‘ احسن اقبال
-
آئین کی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا، عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، چیئرمین سینیٹ
-
وزیراعظم اور امیر کویت کے درمیان ملاقات
-
پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ
-
ہمارے مسالے مضر صحت نہیں، بھارتی کمپنی ایم ڈی ایچ
-
کیا انتظامی عہدے کیلئے حکمران خاندان سے ہونا ہی واحد شرط ہے؟
-
غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں تیزی
-
مولانا فضل الرحمان نے آئندہ لائحہ عمل کے اعلان کی تاریخ دیدی
-
وزیراعظم محمد شہبازشریف سے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کی ملاقات ، گزشتہ سال اسٹینڈ بائے ارینجمینٹ کے حوالے سے وزیراعظم کے قائدانہ کردار کی تعریف
-
وزیراعظم کی سعودی حکام سے ملاقاتوں میں پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر اتفاق
-
دبئی ایئر پورٹ کا اگلے دس سال میں المکتوم ایئرپورٹ منتقلی کا منصوبہ تیار
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.