کراچی، میئرکے انتخاب سے قبل محکموں اور اثاثوں کی تقسیم شروع

جمعہ 1 جنوری 2016 16:57

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم جنوری۔2016ء) سندھ حکومت کی ہدایت پر بلدیہ عظمی کراچی کے میئر کے انتخاب سے قبل ہنگامی بنیادوں پر محکموں و اثاثوں کی تقسیم کا آغاز کردیا گیا، آمدنی والا محکمہ لوکل ٹیکس6 ضلعی بلدیاتی اداروں میں تقسیم ہوچکا تاہم صحت اور تعلیم کا بوجھ اٹھانے کیلیے کوئی بلدیاتی ادارہ تیار نہیں، 12ہزار ملازمین، اسکولز، ڈسپینسریز اور کروڑوں روپے کے اثاثے بلدیاتی اداروں کے حوالے کرنے کیلیے جلد بازی میں فیصلے کیے جارہے ہیں۔

منتخب بلدیاتی نمائندوں کی آمد سے قبل بلدیہ عظمی کراچی کی افسرشاہی 3 اہم محکمے صوبائی حکومت کے اشارے پر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپورینشنز کو منتقل کررہی ہے، اس منتقلی کے عمل میں شفافیت نہ ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر فنڈز میں خورد برد، غیرقانونی پروموشن اور جعلی تقرریوں کا امکان ہے، تفصیلات کے مطابق سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کے تحت بلدیہ عظمی کراچی کے محکمہ لوکل ٹیکس، صحت اور تعلیم کا بجٹ اگلے ماہ ضلعی بلدیاتی اداروں کے حوالے کردیا جائے گا، اس حوالے سے آکٹرائے ضلع ٹیکس کا شیئر بھی بڑھ کر براہ راست 6ضلعی بلدیاتی اداروں کو دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

نئے فارمولے کے تحت33فیصد بلدیہ عظمی کراچی اور 67 فیصد 6 ضلعی بلدیاتی اداروں کو اکٹرائے ضلع ٹیکس کا شیئر ملے گا،ضلعی بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز نے آمدنی والے ادارے محکمہ لوکل ٹیکس کو حاصل کرنے کیلیے گہری دلچسپی دکھائی تاہم خدمت انجام دینے والے محکمے تعلیم وصحت کو لینے کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا جارہا،ذرائع نے بتایا کہ ضلعی ایڈمنسٹریٹرز نے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے انضمام کیلیے کوئی خط وکتابت نہیں کی جبکہ محکمہ لوکل ٹیکس لینے کیلیے سندھ حکومت کے جاری کردہ نوٹی فیکشن کے اجرا کے دوسرے دن ہی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مرکزی دفتر کے چکر لگانے شروع کردیے تھے۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی کی ہدایت پر محکمہ تعلیم، صحت اور لوکل ٹیکس کے ملازمین واثاثے واجبات منتقل کیے جانے کیلئے کمیٹی کا تقرر کیا جاچکا جس کا اجلاس 4جنوری کو ہوگا، بلدیاتی ماہرین نے کہا کہ یہ اصول صرف بلدیہ عظمی کراچی تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صوبائی حکومت کو بھی چاہیے کہ صوبائی اختیارات اور آمدنی والے ادارے بلدیہ عظمی کراچی کو سپرد کرے تاکہ عوام کی خدمت انجام دینے والی بلدیہ کو مستحکم کیا جاسکے۔

بلدیاتی امور کے ماہرین نے کہا کہ تینوں محکموں کی ڈی ایم سیز کو منتقلی میئر کراچی کی موجودگی میں ہونا چاہیے تاکہ شفافیت قائم ہوسکے،2001میں بھی بلدیاتی محکموں اور ملازمین کی منتقلی کے دوران بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی تھی، اس وقت بھی جلد بازی میں فیصلے کیے جارہے ہیں لہذا ان محکموں کی منتقلی کے دوران فنڈز میں خرد برد، غیرقانونی پروموشن اور جعلی تقرریاں بڑے پیمانے پر کیے جانے کا امکان ہے۔

متعلقہ عنوان :