تحفظ حقوق نسواں بل پر دینی جماعتوں اور حکومتی کمیٹی کے مذاکرات کا پہلا دور مکمل

، حکومتی کمیٹی کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے،متنازعہ اور قرآن وسنت سے متصادم شقو ں کی نشاندہی کردی، حکومتی کمیٹی سے 11 سو خطوط کا خلاصہ مانگاہے، ساجد میر پانامہ لیکس سے حکومت کو نجات مل سکتی ہے مگر تحفظ حقوق نسواں بل کی متنازعہ شقوں کی واپسی تک حکومت کی جان نہیں چھوٹے گی،میڈیا سے گفتگو

پیر 18 اپریل 2016 22:37

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 اپریل۔2016ء ) تحفظ حقوق نسواں بل پر دینی جماعتوں اور حکومتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل ، بل کے ابتدائی چار سیکشنز اور اسکی ذیلی شقوں پر تفصیلی تبادلہ خیال، تفصیلات کے مطابق آج تحفظ نسواں بل پر دینی جماعتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے دینی جماعتوں اور حکومتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلہ دور مکمل ہو گیا۔

سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ماڈل ٹاوٴن میں منعقد ہونے والے اجلاس میں دینی جماعتوں کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر اپنے ارکان مولانا اسد اللہ بھٹو، کامران مرتضی جبکہ حکومتی کمیٹی کی طرف سے سیکرٹری سوشل ویلفیئر، ڈپٹی سیکرٹری لاء کے علاوہ مولانا زاہد قاسمی، مولانا غلام محمد سیالوی، ڈاکٹر راغب نعیمی اور پیر محفوظ مشہدی شریک ہوئے جبکہ وزیر اعلی کے قانونی مشیر سلمان صوفی امریکہ سے ویڈلنک پر موجود تھے۔

(جاری ہے)

ا جلاس میں دونوں طرف سے بل کے نکات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ بل کے متعلق دینی جماعتوں کی قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے دفتر106 راوی روڈ پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے بل کے ابتدائی چار سیکشنز اور اسکی ذیلی شقوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس میں متنازعہ اور قرآن وسنت سے متصادم شقوں کی نشاندہی کی۔

اجلاس میں حکومتی کمیٹی ہمیں بریفنگ دینا چاہتی تھی مگر ہم نے بریفنگ نہیں لی نہ ہی ہم ڈکٹیشن قبول کریں گے۔ ہم نے موقف اختیارکیا کہ بل کی شقوں پر ترتیب وار بحث کی جائے جو چیزیں ہمیں متنازعہ لگے گی ساتھ ساتھ نشاندہی ہوتی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نیتحفظ نسواں بل کے بارے میں حکومتی کمیٹی پر واضح کیا ہے کہ قرآن وسنت سے متصادم شقیں واپس لینا پڑیں گی۔

آج کے اجلاس میں ہم نے براہ راست ایسی شقوں کی طرف نشاندہی کی ہے۔ حکومت نے 11 سو علماء کو خط لکھے جس کے جواب میں200 خطوط کا جواب آیا۔ ہم نے کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ گیارہ سو خطوط کا اکٹھا کرے اور اس میں تکرار ختم کرکے اس کا خلاصہ ہمارے سامنے لایا جائے۔ہم نے حکومتی کمیٹی پرزور دیا کہ وہ اس معاملے کو جلد کسی طرف لگائے۔۔ ہمارے نزدیک بل کی تیار ی میں ایک ماڈرن مغرب زدہ عورت کو سامنے رکھاگیا۔

جس میں مرد کے حقوق اور اسکی شرعی فوقیت بری طرح نظرانداز کی گئی ہے۔ اس کی ہر ہر شق عورت کے ارد گرد گھومتی اور مرد کو دینی اور آئینی برتری تو کجا اسکے شرعی حقوق کو بھی دبا دیا گیا ہے۔اس بل کی شقوں کے بغور مطالعہ کے بعد مردوں کے حقوق کے لیے ایک الگ بل کی ضرورت کا احسا س جنم لے رہا ہے۔ اس میں اکثر سزائیں عدالت کی صوابدید پر چھوڑی گئی ہیں۔

ان کے لیے مناسب شہادت کا اہتمام ہے اور نہ ذکر۔ لہٰذا کرپشن کے نتیجے میں عدالت کوئی بھی حکم صادر کرسکتی ہے۔ ہم اس یکطرفہ بل کو مسترد کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بنایا گیاہے۔ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ساجد میرنے کہا کہ پانامہ لیکس سے شائد حکومت کی جان چھوٹ جائے مگر تحفظ حقوق نسواں بل میں قرآن وسنت سے متصادم شقوں کی واپس تک حکومت کی جان نہیں چھوٹے گی۔

متعلقہ عنوان :