ممکنہ سیلابی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے الرٹ رہیں اور جنگی بنیادوں پر نالوں کی صفائی اور دریائی سندھ کے پشتوں کومضبوط بنانے کے کام کو جاری رکھا جائے، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی محکمہ بلدیات اور محکمہ آبپاشی کو ہدایت

پیر 11 جولائی 2016 22:43

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔11 جولائی ۔2016ء) وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے محکمہ بلدیات اور محکمہ آبپاشی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ممکنہ سیلابی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے الرٹ رہیں اور جنگی بنیادوں پر نالوں کی صفائی اور دریائی سندھ کے پشتوں کومضبوط بنانے کے کام کو جاری رکھا جائے، انہوں نے یہ بات پیر کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں نالوں کی صفائی اور دریائے سندھ کے پشتوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی ۔

اجلاس میں سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو، صوبائی وزیر صحت جام مہتاب ڈھر ،صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو، چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن ، سیکریٹری آبپاشی ظہیر حیدر شاہ اور دیگر سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

چیف میتھولوجسٹ رشید نے اجلاس کو بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ تھرپارکر ، عمر کوٹ ، بدین ، ٹھٹھہ اور کراچی میں 12 جولائی تا 13جولائی تک تقریبا 50سے 55 ملی میٹر بارش متوقع ہے مگر شدید طوفان کا کوئی امکان نہیں،صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ شہر میں 30 بڑے نالے ہیں جن میں سے 6 اہم نالے ہیں جن کی بھاری مشینری کے ذریعے صفائی کرکے کلیئر کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہر کی ڈی ایم سیز کے پاس تقریباً 520نالے ہیں اور انہوں نے وہ بھی صاف کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے نالوں پر تجاوزات قائم ہیں ۔ انہوں نے محمود آباد نالے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نالے پر 1.5کلو میٹر کے رقبے پر بری طرح سے تجاوزات قائم ہیں اور وہاں پر مشینری کی نقل و حمل ممکن نہیں لہذا ہم نے وہاں پر مینول طریقے سے کام کیا اور ان حصوں کی صفائی کی ۔

انہوں نے بتایا کہ گجر نالے پر 16مقامات چوک تھے جن کی نشاندہی کے بعد ان میں سے بیشتر کی صفائی کر دی گئی ہے۔ جام خان شورو نے بتایا کہ چار بڑے نالوں کی صفائی کے لئے ورک آرڈر جاری کردئیے گئے ہیں۔ ایک ساتھ تمام نالوں کی ڈی سلٹنگ کا کام مشکل ہے ۔ گجر نالہ 14کلو میٹر طویل ہے پہلے مرحلے میں کے ایم سی نے بہت زیادہ چوک علاقوں کی صفائی اور کلئیر کرانے کے کام کیا ہے اور یہ صفائی کا کام آئندہ چھ ماہ تک جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ عارضی کام ہے مگر اسے آئندہ ایک سال تک جاری رکھنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ نالوں کی اصل چوڑائی تقریباً 200فٹ ہے مگر اب وہ تجاوزات کے باعث سکڑ کر 10فٹ تک رہ گئی ہے اور بعض مقامات پر تو صرف 4فٹ تک کی بھی چوڑائی رہ گئی ہے۔ اس پر جام خان شورو نے کہا کہ گجر نالے پر اس کے اطراف میں 30,000خاندان آباد ہیں۔ ہمیں تجاوزات کے خاتمے کے لئے ایک بڑی اسکیم لانا ہوگی اور سیمینٹ اور کنکریٹ کے ساتھ ان نالوں کی لائن کرنا ہوگی تاکہ مستقبل میں ان پر تجاوزات قائم نہ ہوسکیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر بلدیات اور ان کی کے ایم سی کی پوری ٹیم اور واٹر بورڈ اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ وہ بارش کے پانی کی بروقت نکاسی کو ہر قیمت پر یقینی بنائیں۔ اس کے لئے آپ جنریٹر ہائیر کریں اور ا نہیں زیریں علاقوں میں فکس کریں اور بارش کے شروع ہوتے ہی پمپنگ کا کام شروع کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی اعجاز علی خان کو ہدایت کی کہ وہ کے الیکٹرک کے ساتھ قریبی رابطہ میں رہیں کہ وہ اپنے نظام کو ٹھیک کریں اور خاص طور پر دھابیجی سے شہر تک پمپنگ اسٹیشن تک تاکہ شہر کو شدید بارشوں کے دوران پانی کی فراہمی کو مکمن بنایا جاسکے۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے گندے پانی کے نالوں کی ڈی سلٹنگ کے لئے کے ایم سی کو 160ملین روپے پہلے ہی فراہم کر دیئے ہیں۔ آبپاشی : سیکریٹری آبپاشی ظہیر حیدر شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان دنوں میں دریائے سندھ میں نچلے درجے کا سیلاب ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گڈو بیراج پر پانی کی سطح کوہ سلیمان پر شدید بارشوں کے باعث 325000کیوسک پر پہنچ گئی ہے اور پہاڑوں پر بارش کے باعث ہمارے دریائی نظام پر پریشر بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ سے نو مختلف حساس بندوں پر کام جاری ہے جس میں قادر پور لوپ بند ، قادر پو ر شینک بند، الرا جاگر اور خیرپور میں فرید آباد بندوں، نوشہرو فیروز میں مد بند ، سجاول اور مانکی بندوں اور ملا کتیار بند شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ وہ محکمہ آبپاشی کو کمزور بندوں کومضبوط کرنے کے لئے 200ملین روپے پہلے ہی جاری کر چکے ہیں مگر میں اس بات پر خوش نہیں ہوں کے نچلے درجے کے سیلاب کے موقعہ پرہی چند کینالوں کے پشتوں میں شگاف پڑگئے ہیں اور انہوں نے سیکریٹری آبپاشی کو ہدایت کی کہ وہ ان کی مضبوطی او رسسٹم کی مانیٹرنگ پر توجہ مرکوز کریں۔

سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ دریائے سندھ میں وافر پانی موجود ہے مگر اس کے باوجود روہڑی کینال اور چند دوسری کینالز پر روٹیشن سسٹم و ضع کیا جارہا ہے ۔ صوبائی وزیر صحت جام مہتاب نے بھی کھوڑو صاحب کی بات کی تائید کی کہ روٹیشن سسٹم اختیار کیا جارہا ہے اور انہیں اس بات پر حیرانگی ہے کہ اس شدید بارشوں اور درمیانے درجے کے سیلابی صورتحال کے موقعہ پر وارہ بندی سمجھ سے بالاتر ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری آبپاشی کو ہدایت کی کہ وارہ بندی سے متعلق تفصیلی رپورٹ انہیں بھیجیں اور وضاحت کریں کہ کیوں ایسا کیا جارہا ہے جب ایک ہفتہ سے نچلے درجے کی سیلابی صورتحال ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پنجاب سے بھی زہریلہ پانی چھوڑا جارہا ہے جس کے نتیجے میں گھوٹکی کی زمینوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ چاہتا ہو ں تاکہ اس مسئلہ پر آئندہ کابینہ کے اجلاس میں غو ر ہوسکے۔

بحالی، ری ھیبیلیٹیشن کی سہولیات پر بات کرتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے سلمان شاہ نے کہا کہ انہوں نے ہر ا یک ضلع کو ڈی واٹرنگ پمپس فراہم کئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خیمے ، مچھر دانیاں بھی دستیاب ہیں ۔ سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں خیموں پر مشتمل بستیاں قائم کی جا سکتیں ہیں تاکہ سیلاب اور بارش متاثرین کو اسکولوں میں رکھنے کے بجائے وہاں پر رہائش کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسکولوں میں عارضی سہولیات کی فراہمی کے نتیجے میں عمارت ، فرنیچر اور دیگر سامان کو نقصانات پہنچنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سینئر صوبائی وزیر کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور پی ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں اگر ضرورت پڑے تو انتظامات کو یقینی بنائیں۔

متعلقہ عنوان :