اردو سیکھانی ہے تو ملک ریاض کو بلایا جائے اور آرٹس کونسل کراچی کی عمارت بھی ٹھیک ہوجائے گی،انور مقصود

اتوار 4 دسمبر 2016 21:50

اردو سیکھانی ہے تو ملک ریاض کو بلایا جائے اور آرٹس کونسل کراچی کی عمارت ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 دسمبر2016ء) انور مقصود کے پروگرام میں ہال کھچا کھچ بھرا رہا انور کے برجستہ جملوں پر لوگ ہنستے مسکراتے رہے ہال میں ہنسی روکنا مشکل ہوگئی اور انور مقصود کے جملے بازی جاری رہی جس میں انہوں نے احمد شاہ کو بھی کانفرنس کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا اور کہاکہ جس طرح انہوں نے اردو کانفرنس کرنے کے لئے پریشان تھے اور اردو کانفرنس میں لوگ ان سے پریشان تھے۔

مزاح رائٹر انور مقصود نے اپنے مخصوص انداز میں مزاحیہ جملے پڑھتے ہوئے کہاکہ اردو سیکھانی ہے تو ملک ریاض کو بلایا جائے اور آرٹس کونسل کراچی کی عمارت بھی ٹھیک ہوجائے گی۔ پنجابی ادب کے دو بڑے شیر شہباز شریف ،نواز شریف اور نظامت خواجہ آصف اور تقریر خواجہ سعد رفیق سندھ میں ادبی فرق آصف فرخی اور آصف علی زرداری ، گفتگو مراد علی شاہ نظامت اس کی قائم علی شاہ کریں گے مزاح کو جاری رکھتے ہوئے انور مقصود نے فیض امن عالم ، فیض ہمارے لئے ہمالیہ سے بڑے ہیں یہاں عالم فیض ،عالم لوہار یا عالم چنہ ، انور مقصود نے بتایا کہ لاہور میں میں میڈم نورجہاں سے ملا تو انہوں نے بولا کہ آج شام کس ساتھ منا رہے ہو میں نے کہا آج شام ملکہ پخراج کے ساتھ ہے۔

(جاری ہے)

میرے ساتھ 50سال سے لکھنے والوں کو جو معاوضہ ملتا تھا وہ بولتے نہیں تھے۔ آمر کے سامنے جو لکھنے والے بولتے تھے ان کی زبان قلم کردی جاتی تھی اس سے لکھتے تھے ۔ چینل مالکان آج کل اشتہاری ہیں ۔قرارداد:-1آج امن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ہم اہل قلم اس امر پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ امن انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے۔پر امن فضا میں زند گی گزارنا انسان کا پیدائشی حق ہے جس کے بغیر انسان کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما نہیں ہوسکتی۔

اس لئے ہر ممکن صورت میں امن کی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔ -2 ہمارا یقین ہے کہ جنگیں ، ان کی تیاریاں اور اسلحے کی دوڑ، یہ سب انسانی ترقی کی راہ میں مزاحم ہیں انہوں نے معاشروں میں بگاڑ اور عدم استحکام پیدا کیا ہے ، ہم سمجھتے ہیں محض جنگ کا نہ ہونا ، امن قرار نہیںدیا جا سکتا۔یہ ہی نہیں بلکہ تشدد کی ہر شکل بھی امن کی ضد ہے۔سو ہم قیامِ امن کی بات کرتے وقت اس کے وسیع تر مفہوم کو یعنی تشدد سے پاک صورتحال کو اپنا مقصد تصور کرتے ہیں خاص طور سے خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر تشدد کا خاتمہ کئے بغیر ہم امن کا تصور نہیں کر سکتے۔

ہم اس کے حق میں آواز بلندکرتے ہیں۔-3 ہمارا موقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ بند کی جا ئے ۔قومی وسائل کو کلی طور پر عوام کی بہبود کے لئے وقف کیا جا ئے تاکہ تعلیم، صحت اور روزگار کی صورتحال بہتر ہو سکے اور معاشرے میں عدم مساوات کا خاتمہ ہوسکے۔-4 جنوبی ایشیا کے بین الملکی مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے سوااور کو ئی صورت ممکن نہیں ہے۔

اس لئے بات چیت کے عمل کوفوری اور مو ثر سطح پر شروع کیا جائے۔-5 ہم ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور فنکاروں کے روابط کی مضبوطی پر زور دیتے ہیں ۔ ان روابط کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ملکوںکے اہل قلم کی انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ مختلف ملکوں کے درمیان آمدورفت کو سہل بنانے کی ضرورت ہے خاص طور سے ویزا کے حصول کو آسان بنایا جا نا ضروری ہے۔

-6 ہم کتابوں اور رسالو ں کی ترسیل کو آسان اور اس کے اخراجات کو کم سے کم کرنے کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔-7 ہم جنوبی ایشیا کے تخلیقی و تدریسی اداروں ، خاص طور سے جامعات کے درمیان روابط ، اساتذہ و طلبہ کی آمدورفت اور ان ملکوں میں کانفرنسز،سیمینارز اور کورسز میں ان کی شمولیت کی پر زور وکا لت کرتے ہیں۔-8 ہم جنوبی ایشیا کے اہل قلم کی مشترکہ تنظیموں کے قیام کی بھی تجویز پیش کرتے ہیں۔

-9 وطن عزیز کے اداروں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو نا کافی سمجھتے ہیں۔اعتماد سازی کے مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کا ہر شعبے میں اہتمام کیا جانا چاہئے۔-10 ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پا کستان کے نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کر کے اس ملک کے طلبہ کوصحیح معنوں میں تعلیم یافتہ بنایا جائے جو کہ قائد اعظم کے visionکے عین مطابق ہو۔

-11 اردو کوسرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اوروزیر اعظم نے بھی اس کا اعلان کیا ہے لیکن ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے۔-12پاکستان ،ہندوستان ،ایران ادب وثقافت کے درمیان باہمی ربط ہونا چاہئے۔-13بیرونِ ممالک کی نوجامعات میں اردو چیئر خالی ہے اس پر اساتذہ کی تعیناتی کی جائے۔

متعلقہ عنوان :