صوبے میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا وجود نہیں لیکن ان کے نا م پر فنڈز لئے جارہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر پابندی آئین کے مطابق لگائی ہے تو ہم انکے ساتھ ہیں ، جسٹس کامران ملاخیل

منگل 17 اپریل 2018 17:42

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اپریل2018ء)بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل نے ریما رکس دئیے ہیں کہ صوبے میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا وجود نہیں لیکن ان کے نا م پر فنڈز لئے جارہے ہیں،اگر الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر پابندی آئین کے مطابق لگائی ہے تو ہم انکے ساتھ ہیں ورنہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں ، منگل کو بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سرکاری ملازمتوں پر عائدپابندی کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل بینچ نے کی،درخواست گزار وزیر داخلہ بلوچستان میرسرفراز بگٹی کے وکیل کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ ، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان رئوف عطاء ایڈوکیٹ ڈپٹی اٹارنی جنرل اور صوبائی الیکشن کمیشن کے لا آفیسر عدالت میں پیش ہوئے ،دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلئے مہلت دینے کی استدعا کی گئی الیکشن کمیشن کے نمائند ے نے کہا کہ ہمیں جواب دینے کیلئے دو روز کی مہلت دی جائے جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا یہ بہت زیادہ ہیں آپ کو صرف کتاب دیکھ کر جواب دینا ہے،انہوںنے الیکشن کمیشن کے نمائندے سے مکالمے میں کہا کہ اگر آئین اجازت دیتا ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ورنہ ہم انکے (حکومت) ساتھ ہیں، ،سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل رئوف عطا ء نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کے مینڈیٹ کو چھیننے کی کوشش کی ہے،جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اتنے کم عرصے میں بڑی تعداد میں بھرتیوں پر صاف و شفاف فیصلہ ممکن نہیں ہے،ایڈوکیٹ جنرل رؤف عطاء نے جواب دیا کہ یہ بالکل شفاف ہوگا اس کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے، جسٹس کامران ملاخیل نے استفسار کیا کہ یہ آسامیاں بجٹ میں موجود تھیں ان کو منظور کیا گیا تھا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو بھرتی کرو گے ان سے پابندی سے ڈیوٹی تو نہیں لے سکتے، حکومت نے رپورٹ دی کہ 1366 اسکول نان فنکشنل ہیں،صوبے میں 100 اسکولوں کا وجود ہی نہیں،جسٹس کامران ملاخیل نے ریما رکس دئیے کہ بلوچستان میں ووکیشنل ٹریننگ پروگرام کے نام پر ایم پی ایز فنڈز حاصل کررہے ہیں،صوبے کے اضلاع میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کا نام و نشان بھی نہیں ہے، جس بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کو جواب دینے کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 19 اپریل تک ملتوی کردی۔