96ء میں 24 بوگس پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے 27 کروڑ سے زائد نقصان ہوا ہے ،ْ آڈٹ حکام کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بریفنگ

جمعہ 20 اپریل 2018 18:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اپریل2018ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایاہے کہ1996ء میں 24 بوگس پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے 27 کروڑ سے زائد نقصان ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو کمیٹی کے کنوینر میاں عبدالمنان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی ترقیاتی ادارے کے 2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 1996ء میں 24 بوگس پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے 27 کروڑ سے زائد نقصان ہوا ہے۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ 2000ء میں بورڈ کے اجلاس میں متعلقہ سی ڈی اے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ پی اے سی نے حکم دیا تھا کہ یہ پلاٹ منسوخ کردیئے جائیں۔

(جاری ہے)

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ یہ پلاٹ منسوخ کردیئے گئے۔

کمیٹی کے کنوینر میاں عبدالمنان نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کو الاٹ ہوئے ان کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہوئی، ہمارا کام کسی سے زیادتی کرنا نہیں ہے۔ سی ڈی اے کو پی اے سی نے حکم دیا تھا کہ صرف بوگس پلاٹ منسوخ کئے جائیں اور ادارے کے ملوث ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پی اے سی سیکرٹریٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ پلاٹ دو دو ‘ تین تین دفعہ بک بھی چکے ہیں۔

سی ڈی اے نے پی اے سی کو بتایا کہ اس وقت یہ کیس ایف آئی اے کو ارسال کردیا گیا تھا۔ پی اے سی نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ دو ہفتوں میں اس کی تحقیقات مکمل کرکے پی اے سی کو پیش کی جائے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ اس فراڈ میں الاٹمنٹ کرانے اور الاٹمنٹ کرانے والی دو پارٹیاں ملوث ہیں۔ انہوں نے محکمانہ کارروائی کس قانون کے تحت ادارے کے افسران کے خلاف نہیں کی۔

سی ڈی اے حکام نے تسلیم کیا کہ یہ کام واقعی غلط ہوا ہے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ سی ڈی اے کی ملی بھگت کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتے، جن لوگوں کے دستاویزات پر دستخط موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی روک دی گئی۔ سی ڈی اے حکام نے کہا کہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ 1991ء اور 1996ء کی ہیں، اب وہ لوگ سی ڈی اے میں موجود بھی نہیں ہیں۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ بورڈ نے پلاٹوں کو ریگولرائز کیوں کیا۔

سی ڈی اے حکام نے کہا کہ بورڈ کے حکم پر الاٹیوں سے جرمانہ وصول کرکے ریگولرائز کیا گیا۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ گناہ گار کو سزا ملنی چاہئے تھی۔ایف آئی اے کی دو ہفتوں میں تحقیقات کی روشنی میں سی ڈی اے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ میاں عبدالمنان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے جب تک غلط کاری میں ملوث عملے کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی اس وقت تک اس طرح کی غلط کاریوں کا سدباب نہیں ہوگا۔

پیر سوہاوہ میں2004ء میں مونال ریسٹورنٹ کی تعمیر کے حوالے سے پی اے سی نے ہدایت کی کہ اس کیس کی تحقیقات شفاف انداز میں ہونی چاہئیں تاکہ اداروں پر کوئی انگلی نہ اٹھائی جاسکے۔ پی اے سی سیکریٹریٹ کو ہدایت کی گئی کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کو آڈٹ اعتراضات کے ساتھ دوبارہ ڈی جی ایف آئی اے کو ارسال کی جائے۔

متعلقہ عنوان :