ذیلی کمیٹی مذہبی امور نے تین سال سے زیر التواکمیشن برائے تحفظ غیر مسلم بل کی منظوری دیدی

کمیشن کے قیام پر وزارت مذہبی امور اور اقلیتی اراکین نے اتفاق رائے کر لیا

جمعہ 27 اپریل 2018 20:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 اپریل2018ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی برائے مذہبی امور نے تین سال سے زیر التواکمیشن برائے تحفظ غیر مسلم بل کی منظوری دے دی ،کمیشن کے قیام پر وزارت مذہبی امور اور اقلیتی اراکین نے اتفاق رائے کر لیا ۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورکی سب کمیٹی کا اجلاس کنونئیر کمیٹی چیئرمین علی محمد خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا ۔

اجلا س مین اقلیتی اراکین اسمبلی کی جانب سے تین سال سے زیر التواکمیشن برائے تحفظ غیر مسلم بل پر بحث کی گئی ۔ بل رکن کمیٹی سنجے پروانی ، لال چند ملہی اور بلیم حسنین کی جانب سے پیش کیا گیا ۔ جس پر وزارت مذہبی امور اور لال چند ملہی اور بیلم حسینین کی جانب سے مشاورت کی گئی ۔

(جاری ہے)

رکن کمیٹی لال چند ملہی نے کہاکہ سنجے پروانی ، بیلم حسین اورمیرے بل کو ہم نے یکجا کر دیا ہے۔

جبکہ اس بل پر وزارت مذہبی امور اور اقلیتیاراکین نے بیشتر نکات پر اتفاق کیا ہے۔ کنونئیر کمیٹی علی محمد خان نے کہاکہ اس بل کانام اقلیتی امور کی بجائے نان مسلم پاکستانیز بل کہا جائے اس سے پاکستانیز اجاگر ہو گی ۔ رکن کمیٹی لال چند نے کہاکہ کمیشن کا قیام مذہبی امور سے متعلق نہیں ہے۔کمیشن کا مقصد انسانی حقوق سے متعلق ہوگا۔ جس پر جائنٹ سیکرٹری طاہر خوشنود نے کہاکہ اس سلسلے میں ہیومن رائٹس پہلے سے موجود ہے ۔

لال چند نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن میں 4مسلم رکن شامل ہوں گے جب کہ 6غیر مسلم ممبران ہوں گے جس پر چیئرمین کنونئیر علی محمد نے کہاکہ کہ ان مسلم ممبران میں سے ایک مسلم سکالر کا ہونا لازمی ہے جو تقابل دین پر عبور رکھتا ہو،تمام مسلم و غیر مسلم ممبران میں سے کم ازکم ایک ایک تقابل ادیان کاسکالر ہوگا کمیٹی میں اتفاق رائے پایا گیا کہ کمیشن وزارت مذہبی امور سے منسلک ہوگا جبکہ کمیشن کے ارکان کے لئے اخبارات میں اشتہار دیا جائے گا کمیشن کے ہر رکن کے لئے تین نام وزیر اعظم کو بھیجے جائیں گے ۔

اراکین کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ کمیشن چیئرمین کی تقرری وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے ۔ اجلاس مین سفارش کی گئی ہے کہ کمیشن کو دستاویزات طلب کرنے کے لئے سول عدالت کے اختیارات ہوں گے جب کہ کمیشن اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے لئے کام کرے گا ، کمیشن کی معیاد تین سال ہوگی اراکین کی تنخواہ و مراعات حکومت طے کرے گی ۔کمیشن میں دو دو پنجاب اور سندھ ایک ایک ایک کے پی کے بلوچستان اور اسلام آباد ایک خاتون ممبران ہوں گے۔

کمیشن کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کا چیئرمین اقلیتوں کے حقوق اور بالعموم انسانی حقوق سے متعلق معاملات سے آگاہی اور عملی تجربہ رکھتا ہو۔ چیئرمین کم از کم ایک سال کے تجربے کے ساتھ اقلیتی برادریوں سے ہوگا۔حکومت کی جانب سے نامزد کردہ 11اراکین کا تعلق ممتاز باصلاحیت اور دیانتدار افرادبالخصوص اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کے معاملات پر عبور رکھتا ہو۔