سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کی سماعت ، ملک ریاض عدالت میں پیش

ملک صاحب آب طاقتور ہیں آپ کے خلاف کوئی سر نہیں اُٹھا سکتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 26 جون 2018 13:13

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کی سماعت ، ملک ریاض عدالت میں پیش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 جون 2018ء) : سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحریہ ٹاؤن کیس کی سماعت ہوئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملک ریاض سے کہا کہ ملک صاحب آپ طاقتور ہیں ، آپ کے خلاف کوئی سر نہیں اُٹھا سکتا۔ جس پر ملک ریاض نے کہا کہ اللہ کی قسم طاقتور صرف اللہ کی ذات ہے،میں نے 20 بلین روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 2 بلین تو میں نے ماڑے لوگوں سے نکلوائے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ دولت جمع کرنا چھوڑیں اور لوگوں کی امانتیں واپس کریں۔ اب بحریہ ٹاؤن نے کوئی نیا منصوبہ نہیں کرنا، تمام کام بند کروادوں گا۔ ملک ریاض نے کہا کہ میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

جس کے بعد سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو 5 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ ملک ریاض کو ذاتی، اہلیہ اور بچوں کی جائیداد بیچنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو کل تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کر دی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظر ثانی درخواستوں کی سماعت 21 جولائی کو کریں گے۔عدالت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو پیسے وصول کرنے سے روکتے ہوئے، سماعت 20 جولائی تک ملتوی کردی۔خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو کو بھیجنے اور تین ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کا تبادلہ قانون کے مطابق کیا جاسکتا ہے لیکن زمین کے تبادلے کی شرائط اور قیمت عدالت کا عمل درآمد بینچ طے کرے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک سندھ حکومت زمین کا فیصلہ نہیں کرتی، الاٹی اسپیشل اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنے کے پابند ہوں گے، اس سلسلے میں عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار کراچی کو اسپیشل اکاؤنٹ کھولنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ 30 مئی کو نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ زمین کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث اداروں اور افراد کے خلاف ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔ تحقیقات کے حوالے سے نیب نے انکشاف کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ہزاروں ایکڑ زمینیں ہڑپ کیں جس کے سبب قومی خزانے کو 90 ارب روپے کا نقصان ہوا۔