شاہد خاقان عباسی کا تاحیات نااہل قراردیئے جانے کے فیصلے کو ڈویژنل بنچ میں چیلنج کرنے کا اعلان

میرے خلاف فیصلہ دینے والے جج اپنے اختیارات سے تجاوز اور انتخابات کو متنازعہ بنا رہے ہیں، سابق وزیراعظم کی نجی ٹی وی سے گفتگو

بدھ 27 جون 2018 21:58

شاہد خاقان عباسی  کا تاحیات نااہل قراردیئے جانے کے فیصلے کو ڈویژنل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 جون2018ء) مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خود کو تاحیات نااہل قراردیئے جانے کے فیصلے کے ڈویژنل بنچ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ میرے خلاف فیصلہ دینے والے جج اپنے اختیارات سے تجاوز اور انتخابات کو متنازعہ بنا رہے ہیں ۔بدھ کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرے خلاف فیصلہ وفاداری کی سزا ہے، ریٹرننگ آفیسر نے کہا کہ کوئی ٹمپرنگ نہیں ہوئی، میں نے فیصلہ لکھنے والے جج سے زیادہ ملک کی خدمت کی، یہ جج کرپٹ ہے، یہ جج مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اپنے قانون کے علم، اپنی کرسی کی اتھارٹی اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس سے خوفزدہ ہوں، یہ جج اپنی اتھارٹی سے تجاوز کر رہے ہیں اور انتخابات کو متنازعہ بنا رہے ہیں، میں اس جج کے خلاف ڈویژنل بینج میں جا کر اپیل دائر کروں گا جو کہ میرا حق ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ این اے 57 سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا 8 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ اپیلٹ ٹربیونل کے جسٹس عباد الرحمن لودھی نے جا ری کیا ، حکم نامہ میں بتایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایف سیون ٹو کے مکان کی مالکیت تین لاکھ ظاہر کر کے اڑھائی کروڑ کا قرضہ لیا ہے،،شاہد خاقان عباسی کی نااہلی کے ٹریبیونل فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا ذکر شاہد خاقان عباسی مجلس شوری کا رکن منتخب ہونے کے اہل نہیں ہیں، فیصلہ آئین کی روح سے ایسا امیدوار مجلس شوری کا ممبر بننے کا اہل نہیں ہوسکتا، شاہد خاقان عباسی کے کاغذات نامزدگی میں اثاثوں کی مالیت کم ظاہر کی گئی ہے، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے بیان حلفی میں واضح تضاد ہے،بطور سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی قوم کے عکاس ہیں،ایسے عہدیدار کو صاف اور شفاف ہونا چاہیے، ٹریبونل کے فیصلہ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے زنگ آلود چہرے قوم کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔

ا دھر اس فیصلے کے بعد قانونی حلقوں میں نئی بحث شروع ہو گئی۔