سپریم کورٹ کا منگلا کینٹ میں قتل کے کیس میں متاثرہ فریق کے ساتھ صلح کی بنیاد پر سزا یافتہ ملزم کی بریت کا فیصلہ جاری

جمعہ 29 جون 2018 23:49

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 جون2018ء) سپریم کورٹ نی جون 2007ء میں ضلع جہلم کے علاقہ منگلا کینٹ میں ہونے والے قتل کے کیس میں متاثرہ فریق کے ساتھ صلح کی بنیاد پر سزا یافتہ ملزم کی بریت کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔ واضح رہے کہ ملزم وحید نے جون 2007ء میں طارق نامی شخص کو قتل کیا تھا۔ بعدازاں مقدمہ کے اندراج کے بعد ٹرائل کورٹ نے جولائی 2012 ء میں شواہد کی روشنی میں ملزم وحید کو سزائے موت کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی جس کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں اپیل دائر کی لیکن ہائی کورٹ نے بھی کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ملزم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل خارج کردی۔

بعد ازاں ملزم وحید کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کیخلاف اپیل دائر ہونے پرسپریم کورٹ نے ملزم کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی تاہم اسی دوران ملزم نے متاثرہ فریق / مقتول کے ورثاء سے صلح کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں نئی کریمینل اپیل دائر کرتے ہوئے اپنی بریت کی استدعا کی۔

(جاری ہے)

عدالت نے مجرم کی جانب سے دائر کریمینل اپیل کا جائزہ لینے کے بعد اس نکتہ پر غور کیا کہ اگر صلح کی بنیاد پر سزا یافتہ ملزم کوبری کیاجائے تو مجرم کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیل کو کس بنیاد پر نمٹایا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیاہے کہ عدالت نے صلح نامہ کی تصدیق کیلئے معاملہ سیشن جج جہلم کوبھجوایا جہاں سے آنے والی رپورٹ میں صلح نامے کی تصدیق کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ مقتول کے ورثاء نے مجرم کو معاف کردیا ہے اوراس سے دیت کی رقم تک نہیں لی ہے جس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اس قانونی نکتہ پر تفصیلی غور کیا کہ راضی نامہ کی بنیاد پرملزم کوبری کرنے کے بعد پہلے والی اپیل کوکس بنیاد پرنمٹایا جائے گا۔

فیصلے کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے راضی نامہ کی بنیاد پر ملزم کی بریت کیلئے کریمینل اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ کوڈ آف کریمینل پروسیجر کے سیکشن 345(6 )کے تحت جرم کا مرتکب شخص بریت کا حقدار ہوسکتا ہے کیونکہ اسی سیکشن کے تحت جرم کا ارتکاب بالاخر بریت پر منتج ہوتا ہے۔ اس لئے عدالت ذیلی عدالتوں کی جانب سے ملزم کو سنائی گئی سزا ئوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے راضی نامہ کی بنیاد پر ملزم کو بری کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے واضح تحریر کیاہے کہ میں اس امر سے اتفاق کرتاہوں کہ پی پی سی کے تحت دائر کریمینل اپیل تومنظورکی جاسکتی ہے لیکن میں اس امرسے خود کوقائل نہیںکرپارہا ہوں کہ راضی نامہ کی بنیاد پر جرم کے مرتکب شخص کوبری کیا جائے۔ کیونکہ کوڈ آف کریمینل پروسیجر کا سیکشن 345(6 ) بریت کی وضاحت نہیں کرتا ۔ بعدازاں یہ معاملہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کوبھیجا گیا جس نے یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کوریفرکردیا جس نے کیس کے تمام متعلقہ ریکارڈ اور فوجداری قوانین کاجائزہ لینے کے بعد کاقراردیا کہ کوڈ آف کریمینل پروسیجر کا سیکشن 345(6 ) قابل سزا جرم کا مرتکب مجرم بھی قانونی بریت کے تمام ثمرات اورفوائد کاحقدا ر ہوتاہے۔