ابو ظہبی:جائے حادثہ پر موجود افراد خود بھی حادثے کا شکار ہو گئے

نو سے زائد افراد تیز رفتار کار کی زد میں آ گئے

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 9 جولائی 2018 14:19

ابو ظہبی:جائے حادثہ پر موجود افراد خود بھی حادثے کا شکار ہو گئے
ابوظہبی( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9 جُولائی 2018) العین کے علاقے میں ایک کار کو پیش آنے والے حادثے کے بعد اکٹھے ہونے والے افراد ایک تیز رفتار کار کی زد میں آ کر خود بھی ناگہانی حادثے کا شکار بن گئے۔ تفصیلات کے مطابق جائے حادثہ پر چند افراد مجمع کی صورت میں موجود تھے کہ وہاں سے گزرنے والی ایک تیز رفتار کار کی ٹکر کے باعث نو سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔

پولیس کے مطابق العین سے دُبئی جانے والی ہائی وے پر ایک کار کو حادثہ پیش آیا جسے سڑک کی سائیڈ پر لگا دیا گیا۔ وہاں موجود کچھ راہگیروں اور کار سواروں نے گاڑیاں روک کرزخمیوں کو امداد دینے کی کوشش کی۔ اسی دوران ایک تیز رفتار کار نے ان میں سے کچھ افراد کو کچل ڈالا۔تاہم جائے حادثہ پر گاڑیوں کے رُ ک جانے کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو گئی جس کے باعث ایمبولینسز اور پولیس پٹرولز کوبروقت پہنچنے میں دِقت کا سامنا کرنا پڑا اور یوں زخمیوں کی طبی امداد میں اور انہیں ہسپتال پہنچانے میں خاصی تاخیر واقع ہوئی۔

(جاری ہے)

اس واقعے پر بات کرتے ہوئے العین ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کرنل احمد الزیودی کا کہنا ہے کہ جائے حادثہ پر عوام کا گاڑیاں روک کر اکٹھا ہو جانا معمول بن چُکا ہے۔ اُن کا یہ اقدام ٹریفک کی روانی کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے طبی اور امدادی کارروائی کی غرض سے آنے والی ایمبولینسوں کاقیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ حالانکہ2017ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا جس کے تحت حادثات کے دوران روڈز بلاک کرنے یا ٹریفک کی روانی میں رُکاوٹ ڈالنے والوں پر ایک ہزار اماراتی درہم کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

جائے حادثہ پر گاڑیاں روک لینا یا مجمع لگانا خلافِ تہذیب عمل ہے اور اس سے دُوسرے کار سواروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے کئی بار معلوماتی لٹریچر بھی پوسٹ کیا گیا ہے جس کے تحت لوگوں میں شعور اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ کار چلانے والوں کو جائے حادثہ کو دیکھنے کی غرض سے گاڑیوں کی رفتار دھیمی نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ اس کے باعث ایمبولینس کو امدادی کارروائی کے لیے بروقت پہنچنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔