چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب

اجلاس میںلاپتہ افراد کے کمیشن کے چیئرمین کے علاوہ متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز اور دیگر افسران کی بھی شرکت

جمعہ 3 اگست 2018 00:30

اسلام آباد ۔ 2 اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اگست2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کے معاملہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس حوالے سے مستقبل قریب میں بہتری نہ لائی گئی تو سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اس معاملہ کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے گی۔ وہ جمعرات کو انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جوسپریم کورٹ میں ان کی صدارت میں ہوا اجلاس میںلاپتہ افراد کے کمیشن کے چیئرمین کے علاوہ متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز اور دیگر افسران نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے اس معاملے میں تمام ریاستی اداروں کی آئینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، خصوصاً عدالتوں میں عوام الناس کی آزادی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران شرکاء نے اس امر کی وضاحت کی کہ عام طور پر لاپتہ افراد کے حوالہ سے جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں وہ سراسر حقائق کے برعکس ہوتے ہیں جس کی کئی مثالیں کمیشن کے سامنے آئی ہیں، کمیشن کی طرف سے اجلاس کوبتایا گیا کہ مارچ 2011ء میں اپنے قیام کے بعد سے لے کراب تک کمیشن کو لاپتہ افراد کے بارے میں 5290 کیسز موصول ہوئے ہیں جن میں سے صرف 2636 کیسوں کا سراغ لگایا جا سکا جن میں سے 446 ایسے افرادکیس بھی شامل تھے جو لاپتہ افراد میں شامل نہیں تھے جبکہ 382 کیسوں کو ان کے نامکمل پتوں اور نان پراسیکیوشن سمیت مختلف تکنیکی بنیادوں پر فہرست سے نکال دیا گیا ہے تاہم کمیشن کے پاس اس وقت لاپتہ افراد کے 1828 کیسز موجود ہیں۔

اجلاس میں یہ امر بھی زیر غور لایا گیا کہ لاپتہ افراد کے حوالہ سے حقائق اور عوامی تصورات میں وسیع فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ ظاہر کیا جا تا ہے حتیٰ کہ ایسے لوگوں کو بھی لاپتہ ظاہر کیا جاتارہا ہے جو خود بیرون ملک چلے گئے یا مختلف ممالک خصوصاً افغانستان یا مشرق وسطیٰ میں جاکر وہاں کی جیلوں میں قید ہیں، ان کو بھی غلط طور پر لاپتہ ظاہر کیا جا تاہے۔

اس کے علاوہ بعض افراد سرحد پار کرتے ہوئے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعداد کی شناخت کر لی گئی ہے جو مختلف عدالتوں کی جانب سے مفرور قرار دینے کے بعد زیر زمین چلے گئے ہیں۔ ان حقائق کے علاوہ اکثر افراد کے کیسوں کو بار بار درج کرایا جاتا ہے ایسے کئی افراد کو مختلف فورمز پر دو، دو، تین، تین بار ظاہر کیا گیا ہے۔

اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ ان غلط اورحقائق کے برعکس اعداد و شمار کومنظرعام پرلانے میں بڑا کردار ہمسایہ ملکوں کی پاکستان مخالف انٹیلی جینس ایجنسیوں کا ہے اور اس معاملے میں کئی لوگ رنگے ہاتھوں پکڑ ے جا چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے اجلاس کے شرکاء سے کہا کہ سپریم کورٹ کسی طور پر کسی بھی شہری کی زندگی یا آزادی پر غیر قانونی قدغن برداشت نہیں کرے گی، لاپتہ افراد کے حوالہ سے رپورٹنگ کی ایک موثر حکمت عملی تیار کی جائے جو اس امر کا پتہ چلا سکے کہ بعض لاپتہ ظاہرکئے گئے لوگ ہمسایہ ملکوں کی جیلوں میں کہیں قید تونہیں یا وہ سرحد پار کرکے کسی دہشت گرد گروپ میں شامل تونہیںہوئے ہیں۔

اجلاس میں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کا ایک باقاعدہ ڈیٹا تیار کیا جائے جس طرح ایدھی جیسی مختلف این جی اوز نے، وہ ہزاروں لاوارث لوگ جو دفنائے گئے ہیںکا ڈیٹاتیار کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہمسایہ ممالک یا دیگر ملکوں میں تنازعات کے دوران یا ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں کیونکہ جنوبی ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے مختلف ملکوں میں ایسے مختلف لسانی اورسیاسی گروپوں کے کارکن کام کر رہے ہوتے ہیں جن کو عموماً غلط طور پر لاپتہ افراد ظاہر کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھیں اور اس معاملہ کو مفروضوں سے نکال کر حقائق کی روشنی میں سامنے لائیں دوسری جانب جو بھی افراد پکڑے جاچکے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور اگر اس حوالہ سے جلد کوئی بہتر صورتحال سامنے نہ آئی تو عدالت اس کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے گی۔