�نٹرنیشنل نیوز)

مقبوضہ کشمیر: آئینی حیثیت میں تبدیلی کی کوششوں کے خلاف حریت کانفرنس کی اپیل پر دو روزہ ہڑتال شروع پہلے دن وادی میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈائو ن ، معمولاتِ زندگی درہم برہم ریل سروسز بند ، زائرین کی جموں کے بیس کیمپ سے روانگی عارضی طور پر روک دی گئی مختلف مقامات پر کشمیریوں کے احتجاجی مظاہرے، فورسز اور مظاہرین کا آمنا سامنا بھی ہوا

اتوار 5 اگست 2018 19:11

�رینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 اگست2018ء) مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدلنے اور اس کے شہریوں کو حاصل استحقاق ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف مقبوضہ وادی اور ریاست کے جموں خطے کے چند علاقوں میں اتوار سے دو روزہ عام ہڑتال کا آغاز ہو گیا ہے ۔ہڑتال کے پہلے دن وادی میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈا ئون رہا جس کی وجہ سے معمولاتِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔

ہڑتال کی اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی حریت پسند قیادت نے دے رکھی ہے جس کی توثیق مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں، تاجر انجمنوں اور سول سوسائٹی گروپس نے بھی کی ہے۔ اس موقع پر سڑکیں اور شہر سنسان رہے، جبکہ سیکورٹی کے بھی سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے اور بھارتی فورسز کی بڑی تعداد سنسان سڑکوں پر گشت پر مامور رہی ،۔

(جاری ہے)

مختلف مقامات پر کشمیریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے جہاں فورسز اور مظاہرین کے درمیاں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

وادی کشمیر میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر حکام نے ریل سروسز بند کردی گئی تھی اور جنوبی کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ھندوؤں کے متبرک مقام امر ناتھ گھپا کی سالانہ یاترا کو آنے والے زائرین کی جموں کے بیس کیمپ سے روانگی عارضی طور پر روک دی گئی ۔ہڑتال آئینِ ہند کی دفعہ 35 اے کو منسوخ کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی ایک درخواست کی پیر کو ہونے والی سماعت کے خلاف کی جارہی ہے۔

دفعہ 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو ریاست کے "مستقل رہائشیوں" (دیرینہ باسیوں) کا تعین کرنے اور انہیں خصوصی حقوق اور مراعات دینے کا حق حاصل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں 1927ئ سے نافذ وہ قانون متاثر ہوگا جس کے تحت کئی پشتوں سے کشمیر میں آباد افراد ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں عرضی ایک غیر سرکاری تنظیم 'وی، دی سٹیزنز' نے 2014ئ میں دائر کی تھی جسے مبینہ طور پر قدامت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوئیم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پشت پناہی حاصل ہے۔کشمیر کے مختلف حلقے یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ عدالت اس آئینی ضمانت کو منسوخ کر سکتی ہے۔عدالت میں آئینِ ھند کی دفعہ 370 کے خلاف بھی ایک عرض داشت زیرِ سماعت ہے۔

اس دفعہ کے تحت ریاست کشمیر کو بھارت میں خصوصی آئینی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیری حریت پسند جماعتوں کا موقف ہے کہ دفعہ 35 اے کو منسوخ کرانے کے مطالبے کے پیچھے مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سوچ کار فرما ہے۔ ان کا الزام ہے کہ بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس آئینی شق کے خلاف مہم چلانے والوں کی پشت پناہی اور اعانت کر رہی ہے۔

ریاست کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے اور دفعہ 35 اے کے تحت اس کے باشندوں کو حاصل استحقاق کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف تحریک میں کئی بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں جن میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) پیش پیش ہیں۔نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ اگر دفعہ 35 اے منسوخ کی جاتی ہے تو بھارت کے ساتھ ریاست کا الحاق خود بخود ٹوٹ جائے گا جبکہ 'پی ڈی پی' کے رہنماو ں کا موقف ہے کہ دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر اور بھارت کے درمیان ایک پٴْل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی منسوخی اس پٴْل کے ٹوٹنے کا مو?جب بن جائے گی۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایسی کوشش کا توڑ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنا ہو۔ ادھر حریت قیادت' نے خبر دار کیا ہے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے ان کے بقول کشمیری عوام کے مفادات کے خلاف فیصلہ دیا تو ریاست میں ایک ہمہ گیر مزاحمت شروع کی جائے گی۔

حریت قیادت نے بھارت پر کشمیر میں فلسطین جیسے حالات پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ آئینی دفعات کے ساتھ دانستہ کھلواڑ یہاں غیر مسلموں کو بسا کر ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص کو بدلنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ ادھر حکمران بی جے پی اس طرح کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے بھارت میں مکمل انضمام کے حق میں ہے۔

اس کا اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور گروپس کا استدلال ہے کہ دفعہ 35 اے کی بقا کا دار و مدار سپریم کورٹ کے فیصلے اور ملک کے عوام کی مجموعی خواہش پر ہے۔بی جے پی کا موقف ہے کہ دفعہ 35 اے اٴْن بنیادی حقوق کے خلاف ہے جن کا آئینِ ہند شہریوں کو یقین دہانی کراتا ہے۔بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر جموں و کشمیر کے گورنر نے بھارتی سپریم کورٹ سے ایک درخواست کے ذریعے دفعہ 35 اے پر سماعت ملتوی کرنے کی گزارش کی ہے۔

ریاست میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے 19 جون کو ختم ہونے کے بعد سے گورنر راج نافذ ہے۔گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کو بھی ایک خط لکھ کر ان سے درخواست کی ہے کہ ریاست میں عوامی حکومت کے قیام تک دفعہ 35 اے کے معاملے کو التوا میں رکھا جائے۔