سعودی عرب کی اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت ہے

سعودی قرضہ ملکی معیشت پر موجود موجودہ دباو کو کم کرنے میں مدد دے گا، تاہم آئی ایم ایف کی پاکستان کو اب بھی ضرورت ہے: سابق وزیر خزانہ شوکت ترین

muhammad ali محمد علی منگل 23 اکتوبر 2018 22:40

سعودی عرب کی اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اکتوبر2018ء) سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت ہے، سعودی قرضہ ملکی معیشت پر موجود موجودہ دباو کو کم کرنے میں مدد دے گا، تاہم آئی ایم ایف کی پاکستان کو اب بھی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پا جانے والے اقتصادی معاہدوں پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے اکاونٹ میں 3 ارب ڈالرز رکھنے کا اعلان بہت بڑی خوشخبری ہے۔ سعودی عرب کے اس اقدام کے باعث پاکستان پر موجود بیرونی ادائیگیوں کا بڑھتا ہوا بوجھ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

تاہم سعودی عرب سے ملنے والے 3 ارب ڈالرز کافی نہیں ہیں۔ پاکستان کو اب بھی آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ پاکستان کو اب بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی فوری امداد جبکہ 3 ارب ڈالرز کا تیل بھی فراہم کرے گا جس کی ادائیگی پاکستان اپنی سہولت کے مطابق بعد میں کرے گا۔ اس ریولونگ کریڈٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان یہ رقم تین سال کے دوران استعمال کر سکتا ہے، اور ایک بار مکمل ادائیگی کی صورت میں تین سال کے دوران دوبارہ یا اس سے زائد مرتبہ اتنی ہی رقم وصول کرسکتا ہے۔

سعودی وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجدان کے درمیان مفاہمت کی ایک یاداشت پر بھی دستخط کیے گئے ہیں جس کے تحت اتفاق کیا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی ادائیگیوں میں توازن رکھنے کیلئے ایک سال کیلئے 3 ارب ڈالرز دے گا۔ جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک سال کیلئے 3 ارب ڈالرز کا تیل ادھار پر بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب ایک سال کیلئے موخر ادائیگیوں پر پاکستان کو ادھار تیل دے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پا جانے والے اقتصادی معاہدے تین سال کیلئے ہوں گے۔ تین سالہ معاہدوں پر تین سال بعد دوبارہ نظرثانی کی جائے گی۔