سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت

جمعرات 22 نومبر 2018 23:51

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ، جمعرات کوجسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پرڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے پیش ہوکر عدالت کوآگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے باعث یہاں عدالت میں حاضر نہیں ہوسکے، جس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسارکیا کہ کیا اٹارنی جنرل ماہر معاشیات ہیں ، ہم ان کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں، فاضل جج نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل ، ججز اور آئی ایس آئی سمیت ہر کوئی ریاست کا ملازم ہے،فاضل جج نے دھرنے کے حوالے سے کہا کہ کیا یہ اظہا رائے کی آزادی ہے،دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن پاکستان میں کیا ہورہا ہے ،سمجھ نہیں آتی کہ پیمرا پر اتنے پیسے کیوں خرچ کیے جاتے ہیں،وہ کون سی قوتیں ہیں جو چینلز چلا رہی ہیں، پاکستان جنگ سے نہیں آئینی قوت سے بنا تھا، لیاقت علی خان، قائداعظم اور میرے والد تحریک آزادی کا حصہ تھے، ہم آزاد پاکستان میں خوف سے نہیں جئیں گے انہوں نے مزید کہا کہ ہم حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، لیکن پیمرا کو جب کوئی شکایت آتی ہے تو کم از کم اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا سے کہا کہ آپ تو پرانے بیوروکریٹ ہیں اپنے حکام سے پوچھیں کہ کتنے دن پاکستان بند رہا، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کے استفسارپرآئی ایس آئی کی رپورٹ کے حوالے سے کہاکہ اس رپورٹ میں حساس چیزیں ہیں، رپورٹ کا جائزہ چیمبر میں لیا جائے۔

(جاری ہے)

جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ کیا ایک اوورسیز پاکستانی سیاسی جماعت بنا سکتاہے بے شک پر امن احتجاج سب کا حق ہے، لیکن کسی کو پر تشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کیا پاکستان میں سنسر شپ ہے، ایک سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ مفروضے پر بات نہیں کی جاسکتی، لیکن اگر پیمرا کو کوئی شکایت موصول ہو جائے تو اس پر تحقیقات ہوتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ایک ہی بار طے کر ناہے پاکستان کو کیسے چلانا ہے،پارلیمنٹ طے کرے پاکستان کو کیسے چلانا ہے پیمرا قانونی تقاضے مکمل کرے۔

بتایا جائے کہ کیاپیمرا نے خط لکھنے کے علاوہ کوئی ایکشن لیاہے اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کنٹرولڈ میڈیا اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں پاکستان اور ریاست کا مذاق نہ بنائیں،پیمرا پر ایک بلین خرچ ہو رہے ہیں اور پیمرا کو چینلز کی بندش کا نہیں پتہ، سماعت کے دوران ایک استفسارپر اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایاکہ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق کاروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے، اگر ریاست یہ تعین کرے کہ سیاسی جماعت غیرملکی فنڈنگ لے رہی ہے تو اس پر کاروائی ہو سکتی ہے۔

اس کے ساتھ سالانہ اکائونٹس کی تفصیلات اور انتخابی مہم کے اخراجات میں بھی فرق ہے، جبکہ قانون میں انتخابی مہم کی تفصیل فراہم نہ کرنے پر کاروائی کیلئے کوئی شق موجود نہیں،۔ جس پرفاضل جج نے کہاکہ قانون کے ساتھ مذاق نہ کیا جائے ،بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔