افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو دنیا سراہ رہی ہے. وزیرخارجہ

پاک امریکا تعلقات کے حالیہ بیانات انتہائی مثبت ہیں، انگلیاں اٹھانے کے بجائے ہمارے کردار کو سراہا جارہا ہے. شاہ محمود قریشی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 فروری 2019 11:41

افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو دنیا سراہ رہی ہے. وزیرخارجہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 فروری۔2019ء) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو دنیا سراہ رہی ہے. وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے میونخ روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میونخ میں گلوبل سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے جرمنی روانہ ہورہاہوں، گلوبل سیکورٹی کانفرنس میں دنیا بھر میں بہت سے ممالک شرکت کرتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں عالمی سیکورٹی صورتحال پرمستقبل کے لئے مربوط لائحہ عمل مرتب کیا جاتاہے جہاں دنیا بھرسے وزرائے خارجہ،وزرائے دفاع اور سیکورٹی ماہرین شرکت کرتے ہیں.

(جاری ہے)

وزیر خارجہ نے کہا کہ میونخ میں افغان صدر اشرف غنی بھی تشریف لارہے ہیں،ایک پینل ڈسکشن میں افغان صدراشرف غنی افغانستان کا نقطہ نظرپیش کریں گے اورمیں پاکستان کے نکتہ نظر کو سب کے سامنے رکھوں گا.

انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات کے حالیہ بیانات انتہائی مثبت ہیں، پاکستان پرانگلیاں اٹھانے کے بجائے پاکستان کے کردار کو سراہا جارہا ہے. دوسری جانب جرمن نشریاتی ادارے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میونخ سیکورٹی کانفرنس میں اس سال عالمی عدم استحکام کے موضوع پر تفصیلی مباحثے کیے جائیں گے اور اس میں شرکت کرنے والی سرکردہ شخصیات میں امریکی نائب صدر مائیک پینس، روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل بھی شامل ہوں گی.

میونخ کانفرنس کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی امور کے حوالے سے آج کی دنیا ایک ایسا ٹوٹا پھوٹا معمہ بن چکی ہے، جس کے بارے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس معمے کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر وہ تصویر کون بنا سکتا ہے، جو مکمل حالت میں اسی معمے سے بنتی ہے یا بن سکتی ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گہا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کو ایک بحران کا سامنا ہے اور امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی سیاست کے ساتھ معاملات کو صرف بد سے بد تر ہی بنا رہے ہیں.

اسی رپورٹ کے حوالے سے میونخ سیکورٹی کانفرنس کے سربراہ وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا ہے کہ اس وقت امریکا، چین اور روس کے مابین طاقت کے مقابلے کا ایسا دور شروع ہو چکا ہے کہ جو نظام اب ایک ترقی پسندانہ بین الاقوامی نظام (لبرل انٹرنیشنل آرڈر) کے طور پر جانا جانے لگا ہے، اسے ان حالات میں قیادت کے ایک مخصوص خلا کا سامنا بھی ہے. رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ اس عدم استحکام کی کم از کم ایک بڑی وجہ تو امریکی صدر ٹرمپ بھی ہیں‘ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں وائٹ ہاﺅس میں موجودہ انتظامیہ اس بارے میں انتہائی کم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ امریکا کو ان سب معاہدوں پر کاربند رہنا چاہیے، جن کے احترام کا وہ پابند بھی ہے.

اسی امریکی کردار کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ اکثر جو ٹویٹس کرتے ہیں وہ مغربی دفاعی اتحاد جیسی بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں تک کی حیثیت اور کردار پر بڑے سوالات کھڑے کر دیتی ہیں. اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ جسے ابھی تک آزاد دنیا کہا جاتا ہے اور جس کا سربراہ امریکا کو سمجھا جاتا ہے صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا اپنے اسی قائدانہ کردار سے بظاہر دستبردار ہوتا نظر آ رہا ہے.

میونخ سیکورٹی رپورٹ جاری کرتے ہوئے وولفگانگ اِیشِنگر نے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ بحر اوقیانوس کے آر پار یورپ اور امریکا کے تعلقات کئی شعبوں میں اٹھنے والے متعدد سوالات کے باوجود انتہائی غیر معمولی ہیں اور اس بار میونخ سیکورٹی کانفرنس میں شریک امریکی کانگریس کے ارکان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی‘ ان میں ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی اور سابق صدارتی امیدوار مٹ رومنی بھی شامل ہوں گے.

ایم ایس آر نامی اس رپورٹ کے مطابق امریکا اور روس کے مابین رقابت ابھی تک دوطرفہ بنیادوں پر ایسے الزامات سے عبارت ہے، جس میں ماسکو واشنگٹن کو اور واشنگٹن ماسکو کو جوہری معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتا ہے‘ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی، جو ایک مسلمہ حقیقت ہیں، بظاہر ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھی جاتی ہیں، جو بہت بڑا یا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے.

اسی رپورٹ میں اس افسوسناک سوچ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے خطرات کے معاملات میں جلد کوئی بڑی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دیتی. اس رپورٹ کے مطابق یورپ بین الاقوامی سطح پر اپنے اسٹریٹیجک کردار میں آگے کے بجائے مسلسل پیچھے جا رہا ہے‘اس کے علاوہ یورپی یونین نے اس سلسلے میں بھی اپنے طور پر کافی تیاری نہیں کی کہ وہ بڑی طاقتون کے مابین طاقت ہی کے بڑے مقابلے میں خود کو کہاں رکھے گا.

ایِشِنگر کے مطابق 2019ءیورپ اور یورپی یونین کے لیے ایک فیصلہ کن سال ہو گا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ مارچ کے آخر میں برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا اور اکتوبر میں یورپی مرکزی بینک کے نئے صدر کی نامزدگی عمل میں آئے گی. جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو بریگزٹ کی وجہ سے یہ پیش گئی ابھی تک نہیں کی جا سکتی کہ لندن اپنے لیے مستقبل میں کس پوزیشن کا خواہش مند ہو گا اور عملی طور پر اس کی حیثیت آئندہ کتنی موثر رہے گی.