ڈائو یونیورسٹی میں ساتویں انٹرنیشنل کانفرنس آن انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ کا انعقاد

پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑدیا ہے، ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ میں تیزی سے آئی، پروفیسر عطاء الرحمن 1میں بھارت ہم سے آگے تھا، اب ہم آگے ہیں، ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلے ایک ارب دیئے گئے اب بجٹ بڑھا کر 20ارب کر دیا

ہفتہ 20 اپریل 2019 22:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اپریل2019ء) سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر چئیر مین وزیرِ اعظم ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی ،ممتاز سائنس دان پروفیسر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان نے ریسرچ کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑدیا ہے، ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد ریسرچ میں تیزی سے آئی، 2001میں بھارت ہم سے آگے تھا، اب ہم آگے ہیں، ہمارا مقابلہ چائنا سے ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلے ایک ارب دیئے گئے اب بجٹ بڑھا کر 20ارب کر دیا گیا ہے، مگر ہمیں پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کو بڑھانا ہوگا، صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ اس کے استعمال کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے، تاکہ انفراسٹرکچر نہ ہو تو لوگ اپنے طور پر صاف پانی استعمال کرسکیں ِ ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈائو یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اشتراک سے ساتویں انٹرنیشنل کانفرنس آن انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی ، پروفیسر ٹیپو سلطان، منسٹری آف ہیلتھ سے ڈاکٹر عابد علی ، ایڈوانس ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ کی سی ای او ڈاکٹر صدف احمد نے بھی خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریسرچ کے شعبے میں نجی شعبے کا حصہ بہت کم ہے، چین میں نجی شعبہ ریسرچ پر 60فیصد خرچ کرتا ہے، انڈسٹری کورس کے سلسلے میں آگے آنا چاہیے ، انہوںنے کہا کہ جن ممالک میں ایجوکیشن اور ریسرچ پر خرچ کیا جاتاہے، وہ ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل جاتے ہیں، سنگاپور جیسا ملک ساڑھے پانچ ملین آبادی کا ملک اس وقت 330ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کر رہا ہے، جبکہ ہماری ایکسپورٹ 25ارب ڈالرز ہے، سنگاپور جی ڈی پی کے لحاظ سے برطانیہ سے بھی آگے نکل گیا ہے، جس کی وہ کالونی رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم صرف قدرتی اور بعض صنعتی اشیا کی برآمدات کی فکر میں رہتے ہیں، جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ کے ذریعے ہم بہت زیادہ زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں، گذشتہ ادوار میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرکے ہم نے نقصان اٹھایا ہے، کوریا میں سائنس اور تعلیم کے وزیر کامرتبہ ڈپٹی وزیرِ اعظم کا ہوتا ہے، آسٹریا میں سائنس اور اکنامک افیئر ز کے وزیر کو بھی یہی مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، ہم نے 27کلومیٹر کی اورنج ٹرین پر 300ارب روپے خرچ کر ڈالے ، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے ہمارے یہاں صرف ایک ارب مختص کیے گیے، انہوں نے بتایا کہ چین نے 1978میں اپنے طلبا کو تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھیجنا شروع کیا، 2015میں اکیس لاکھ سے زائد طلبا بیرونِ ملک بھجے گئے، جن میں 74فیصد سے زائد ملک میں واپس آگئے ، اور تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہوگئے، انہوں نے کہا کہ بحثیت قوم ہمیں اپنی سمت درست کرنا ہوگی۔

انہوںنے کہا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے اندھے دیکھ سکتے ہیں، اور گونگے بول سکتے ہیں، ایس ڈیوائس بن گئی ہیں، ہم بھی تحقیق کرکے اپنی فصلوں کو پورے سال کاشت کر سکتے ہیں، اور ان کے ذریعے زرِ مبادلہ کماسکتے ہیں۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کانفرنس کا سلوگن ہیلتھ فار ایوری ون اینڈ ایوری وئیر بہت پرکشش ہے، کانفرنس میں شریک لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا، میڈیکل پریکٹیشنرز کو میڈیکل سائنس کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ طبی تعلیم اور ہیلتھ کئیر کے شعبوں کے درمیان اشتراک ِ عمل قائم کرکے عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی آسان بنانا گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک دوائو ں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، پاکستان میں ان دوائوں کا استعمال بہت زیادہ ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے چیئر مین پروفیسر ٹیپو سلطان نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم اپنے جی ڈی پی کا 0.6فیصد صحت پر خرچ کر ررہے ہیں، صحت کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، ڈھائی کروڑ آبادی کی شہر کراچی میں سرکاری اور نجی اسپتال ملاکر صرف 32ہزار بیڈز ہیں، اور گذشتہ دس برس سے یہی اعداد و شمار ہیں۔

ایڈوانس ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کی س ای او ڈاکٹر صدف احمد نے بتایا کہ کانفرنس کے انعقاد سے گذشتہ سات سالوں سے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم ملاہے، جس میں اسکالر اپنی ریسرچ کو پیش کر تے ہیں، اس کانفرنس میں ملک کے مختلف یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے 170اسکالرز نے شرکت کی، مختلف یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والے 410طلبہ اس میں شریک ہوئے۔جن میں آغاخان یونیورسٹی ، بحریہ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی ، سرسید یونیورسٹی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین، یونیورسٹی آف پنجاب، کاوش جنرل انٹرنیشنل اینڈ سائیکیٹری یونیورسٹی حیدر آباد اور جناح ڈینٹل میڈیکل کلالج کے طلبا شریک تھے۔