سعودیہ میں مقیم غیر مُلکیوں نے گرین کارڈ سکیم پر کئی سوالات اُٹھا دیئے

اس سکیم کے تحت اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارتوں کے حامل افراد کو مملکت میں اپنا کاروبار کرنے اور جائیداد خریدنے کی اجازت ہو گی

Muhammad Irfan محمد عرفان جمعرات 16 مئی 2019 13:54

سعودیہ میں مقیم غیر مُلکیوں نے گرین کارڈ سکیم پر کئی سوالات اُٹھا دیئے
ریاض(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین،16 مئی 2019ء) سعودی کابینہ کی جانب سے رہائشی اقامہ سکیم کی رسمی منظوری دے دی گئی ہے، جسے سعودی گرین کارڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سکیم کے باعث غیر مُلکی سعودی عرب میں مستقل رہائش اختیار کر سکیں گے، اپنی جائیداد خرید سکیں گے اور سرمایہ کاری بھی کر سکیں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اگلے 90 روز میںدرخواست دہندہ کے لیے فیس کی شرح، شرائط و ضوابط، طریقہ کار اور حاصل ہونے والے فوائد کا شیڈول تیار کرے گی۔

مملکت میں مقیم غیر مُلکیوں کی جانب سے اس سکیم کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے۔ ایک پرتگالی خاتون لِیا سیڈالیا نے کہا کہ یہ سکیم سعودی مملکت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ کیونکہ اس سے مملکت میں غیر مُلکی سرمایہ آئے گا۔

(جاری ہے)

اس سے سعودیہ میں مقیم لوگوں کا بھی فائدہ ہو گا اور جو لوگ سعودیہ میں رہائش یا کاروبار کا ارادہ رکھتے ہیں، اُن کے لیے بھی اچھا ہو گا۔

تاہم ایک غیر مُلکی یاور حُسین نے اس اسکیم کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔27 سالہ سافٹ ویئر ٹیکنیشن یاسر کا کہنا ہے کہ تمام لوگوں کو ایک ہی زمرے میں رکھنا مناسب نہیں ہے۔ یاور نے بتایا ”میرے والدین آج سے تقریباً35 سال قبل بھارت سے سعودی عرب آئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی کئی دہائیاں اس ملک کو دی ہیں۔ ہم سب بہن بھائی بھی یہیں پید اہوئے۔

بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ میں بھارتی شہری سے زیادہ سعودی باشندہ ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ اس گرین کارڈ اقامہ کی بدولت ہم جیسے لوگ جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئے اور یہیں آباد رہے، اُنہیں کچھ رعایتیں اور سہولتیں حاصل ہوں گی۔“ یمن سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ برانڈنگ کنسلٹنٹ محمد ابو عمر نے کہا کہ اس سکیم سے کیا کیا سہولیات میسر ہوں گی، ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اس سکیم سے فائدہ اُٹھانے کے لیے فیس کتنی رکھی جائے گی۔ کیا اس سکیم سے صرف وہی فائدہ اُٹھا سکیں گے جن کے بینک اکاﺅنٹس میں بھاری رقم پڑی ہے؟یہ تو آگے چل کر پتا چلے گا۔ تاہم مجموعی طور پر یہ سکیم غیر مُلکیوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ یہ کام آج سے کئی دہائیوں پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں تارکین وطن کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ اس وقت مملکت میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہیں یہاں رہائش اور سرمایہ کاری کی سہولیات میسر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی کمائی کا بڑا حصّہ اپنے آبائی وطن بھجواتے ہیں۔ تاہم اُمید ہے کہ اس گرین کارڈ اسکیم کے بعد بہت سے لوگ یہ پیسہ مملکت سے باہر بھجوانے کی بجائے سعودی عرب میں ہی رہائش اختیار کر کے یہیں سرمایہ کاری کریں گے۔