کوئٹہ، ملک سکندر ایڈووکیٹ ، ملک نصیر احمد شاہوانی اور نصراللہ خان زیرے کا صوبائی حکومت کی جانب سے لیویز فورسز کے خاتمے کی نوٹیفکیشن کی شدید مذمت

پیر 20 مئی 2019 23:22

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مئی2019ء) بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی ،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے صوبائی حکومت کی جانب سے لیویز فورسز کے خاتمے کی نوٹیفکیشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت لیویز کے خاتمے کا نوٹیفکیشن واپس لیں۔

مشترکہ بیان میںکہا گیا ہے کہ موجودہ6جماعتی سلیکٹڈ حکومت کو ہر گز یہ اختیا رحاصل نہیں کہ وہ لیویز کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری کرے کیونکہ لیویز ایکٹ کے مطابق کسی نوٹیفکیشن کے ذریعے لیویز کو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گزشتہ دنوں لیویز کے خاتمے کا نوٹیفکیشن کرکے صوبے کے عوام کے ساتھ سنگین غداری کی ہے ۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن اس سلسلے میں جلد لائحہ عمل طے کریگی اور اس ناروا فیصلے کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کریگی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جو پارٹیاں کابینہ کے اجلاس میں لیویز کے خاتمے پر متفق ہوئی آج وہ کس منہ سے ہائیکورٹ جانے کی بات کررہی ہے انہیں چاہیے کہ وہ بلاتاخیر کابینہ کے فلور پر لیویز کے خاتمے کا نوٹیفکیشن واپس لیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ لیویز ایک کمیونٹی پولیسنگ کا نظام ہے جو گزشتہ کم وبیش ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے اور لیویز کو اپنے اپنے علاقوں کے متعلق ہر سطح پربخوبی آگاہی حاصل ہے اور وہ ان سماج دشمن عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں حالانکہ لیویز کے پاس صوبے کا 90فیصد علاقہ ہے جبکہ بجٹ محض 10ارب روپے ہے جبکہ اس کے برعکس پولیس کے پاس 10فیصد علاقہ ہے اور بجٹ 25ارب روپے سے زائد ہے جبکہ اگر ہم جرائم کی تناسب کی بات کرے تو لیویز کے علاقوں میں بہت ہی کم جرائم کے واقعات ہوتے ہیں اور پولیس کے علاقے میں جرائم کا ریشو انتہائی زیادہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 2003میں لیویز فورس کے خاتمے اور مختلف اضلاع میں رد وبدل کا فیصلہ کیا تو صوبے کے تمام سیاسی جمہوری پارٹیوں نے یک آواز ہوکر اس غیر جمہوری غیر قانونی فیصلے کیخلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا اور پھر آخر کار حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور لیویز فورس ایک بار پھر تمام اضلاع میں بحال ہوگئی اور پھر 2010میں لیویز ایکٹ بنایا گیا اور ایکٹ کو صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کیا اور اس ایکٹ کے بعد اب حکومت کسی نوٹیفکیشن یا کسی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لیویز فورس کو ختم نہیں کرسکتی ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ لیویز کا ایک سپاہی 13کلو میٹر پر ہوتا ہے جبکہ پولیس کا سپاہی 0.86کلو میٹر کوکور کرتا ہے اور ان تمام حالات کو دیکھ کر پھر بھی جرائم کا تناسب پولیس کی نسبت لیویز کے علاقے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ لیویز فورس کی بحالی اور استعداد ، تربیت بڑھانے کیلئے بنیادی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس میں کوئٹہ میں لیویز ڈائریکٹریٹ کی عمارت بنائی گئی اسی طرح کوئٹہ اور خضدار میں وسیع علاقے پر لیویز ٹریننگ سینٹر کی تعمیر ہوئی ہے اور لیویز سینٹر خضدار میں3ہزار سے زائد لیویز اہلکاروں نے تربیت بھی حاصل کی ہے ۔

لیویز فورس میں Quick Response Forceبنائی گئی جس میں 500لیویز اہلکاروں نے کمانڈو تربیت بھی مکمل کی ہے ۔ جبکہ اسی طرح لیویز انٹلیجنس اور انویسٹی گیشن کے ادارے بنائے گے اور لیویز ہیڈ کوارٹر میں آئی ٹی سیکشن فعال ہے اور ساتھ ہی لوکیٹر سسٹم بھی موجود ہے۔بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلاتاخیر لیویز کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔