امریکا جنگ نہیں چاہتا‘ لیکن خطرے اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنزکو استعمال کرنے کو تیار ہے. صدر ٹرمپ

ایران کے ساتھ سفارتی آپشن ابھی ختم نہیں ہوا‘تہران آج دو سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ بحرانوں کا شکار ہے.بحرین کے ولی عہد سے امریکی صدر کی ملاقات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 17 ستمبر 2019 10:40

امریکا جنگ نہیں چاہتا‘ لیکن خطرے اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنزکو ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر۔2019ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ واشنگٹن جنگ نہیں چاہتا تھا لیکن کسی بھی خطرے اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنزکو استعمال کرنے کے لیے تیار ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں پہلے یہ جاننا ہوگا کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان سے متفق ہیں کہ سعودی عرب میں تیل تنصیبات پرحملوں میں ایران کا ہاتھ ہے.

(جاری ہے)

بحرین کے ولی عہد سلمان بن حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ سعودی عرب کے پاس اس بارے میں بہت سی معلومات ہیں کہ ارامکو حملے کے پیچھے کون ہے. ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے اور ہمارے پاس ارامکو حملے کے کی تحقیقات کے حتمی نتائج کی بنیاد پر مضبوط پوزیشن اختیار کریں گے‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ سعودی ارامکو کے تیل کی تنصیبات پر حملوں کے ذرائع کا جلد اعلان کیا جائے گا.

ٹرمپ نے اس تاثر کی نفی کی کہ ارامکو کی تیل تنصیبات پر حملوں نے عالمی منڈی کو نقصان پہنچایا ہے‘ جلد ہی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کو اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ سعودی عرب بھیجیں گے. ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا تاریخ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے تنازعات کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ تیار ہے ایران کے ساتھ سفارتی آپشن ابھی ختم نہیں ہوا ہے.

انہوں نے نشاندہی کی کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا‘امریکی صدر نے ایران کے ساتھ سابقہ انتظامیہ کے ذریعے طے پانے والے جوہری معاہدے کا بھی حوالہ دیا اور اسے ایک تباہ کن قرار دیا. انہوں کہا کہ ایران آج دو سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ بحرانوں کا شکار ہے‘انہوں نے ایران کو ان حملوں کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کو اس دعوے کے ثبوت کے طور پر مزیدتصاویر بھی جاری کیں تاہم ایران کے صدر حسن روحانی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا کہ یہ یمنی عوام کی جانب سے ردعمل ہے‘یمن کے حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے.

امریکی صدر نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کا کلیدی اتحادی ہے جس کی مدد کے لیے وہ تیار ہیں تاہم وہ اس بات کے حتمی تعین کا انتظار کریں گے کہ حملوں کا ذمہ دار کون تھا‘ یقینی طور پر لگ رہا ہے کہ یہ ایران کا کام تھا. خیال رہے کہ سعودی حکام نے اپنے ردعمل میں جہاں یہ کہا ہے کہ حملے میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے وہیں ایران کو ان حملوں کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز بھی کیا ہے.

صدر ٹرمپ نے کہا انھیں ردعمل دینے کی جلدی نہیں ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں اور سب سے پہلے اس سلسلے میں اتحادیوں سے بات ہو گی. انہوں نے کہاکہ میں کسی نئے تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن بعض اوقات آپ کو ایسا کرنا پڑتا ہے یہ بہت بڑا حملہ تھا اور اس کا جواب اس سے کہیں بڑا حملہ ہو سکتا ہے. اس سے قبل شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال تشویشناک ہے. یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے مندوب مارٹن گرفتھس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ وہ واضح طور پر نہیں جانتے کہ ان حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے تاہم اس نے خطے میں لڑائی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے.