2019،جنوری تا جون میں1304بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ رپورٹ

اس عرصے میں روزانہ7سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے،کم عمری کی شادی کی40واقعات،ایک بچی کو ونی کیا گیا

جمعرات 19 ستمبر 2019 18:46

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2019ء) بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’ساحل ‘‘کی سال2019 جنوری تا جون کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی جاری کردہ رپورٹ’’ظالم اعداد‘‘کے مطابق1304بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ کے مطابق سال2019 جنوری تا جون کے دوران729بچیاں جبکہ575بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔

ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال2019 جنوری تا جون روزانہ7سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ان خیالات کا اظہار ساحل کے سینئر ریجنل کوارڈی نیٹر سجاد بھٹی نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادی کی40واقعات جبکہ1واقع میں بچی کو ونی کیا گیاہے۔12بچوں اور بچیوں کو مدرسہ جات میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

اس طرح ہسپتال،ہوٹل،کار،کلینک،کالج،فیکٹری،جیل،پولیس اسٹیشن،شادی ھال،قبرستان اور دیگر کئی جگہوں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سال2019 جنوری تا جون کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب سے رپورٹ ہوئی۔پنجاب میں کل652بچے،صوبہ سندھ میں458بچے،بلوچستان میں32،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں90 بچے،خیبرپختوانخواہ میں51بچے جبکہ آزاد کشمیر میں18، گلگت بلتستان کے 3بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔

سال2019 جنوری تا جون کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سی1145واقعات پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوئے۔22واقعات رپورٹ نہ ہوئے۔16واقعات پولیس نے رپورٹ نہ کیے۔جبکہ121واقعات مختلف اخبارات میں مکمل معلومات رپورٹ نہ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق سال2019 جنوری تا جون کے دوران لاہور میں50بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ہم حکومت سے مطالبہ کر تے ہیں۔بچوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام اور مفت قانونی معاونت کیلئے پنجاب کے ہر ضلع میںچائلڈ سیفٹی سیل بنایا جائے۔

بچوں کو جنسی تشدد سے بچائو کیلئے آگاہی مہم موثرحکمت عملی کے تحت چلائی جائے۔بچوں سے متعلق نئے قوانین بنائے جائیں اور نافذ شدہ قوانین کے اندر مزید بہتری لائی جائے اور نافذ شدہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔جنسی تشدد سے متاثرہ بچوں کی بحالی کیلئے موثر سپورٹ سسٹم قائم کیے جائیں۔بچوں کی حفاظت پر مبنی پیغامات کو بچوں کے نصاب کاباقاعدہ حصہ بنایا جائے۔