بلوچستان حکومت نے ریکوڈک منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوششیں تیز کردیں

بلوچستان حکومت نے چین سمیت مختلف ممالک کی مائنگ کمپنیوں سے رابطے شروع کر دیے

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ ہفتہ 5 اکتوبر 2019 19:33

بلوچستان حکومت نے ریکوڈک منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوششیں تیز ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 05اکتوبر 2019ء) بلوچستان حکومت نے ریکوڈک منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے کوششیں تیز کردی ہیں۔ بلوچستان حکومت نے چین سمیت مختلف ممالک کی مائنگ کمپنیوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ریکوڈک منصوبہ بند ہونے کی وجہ سے سینکڑوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں اس لیے اب بلوچستان حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے اقدامات شروع کردیے ہیں۔

حکام کے مطابق حکومت بلوچستان نے اس مقصد کے لیے چین سمیت مختلف ممالک کی مائنگ کمپنیوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے سے متعلق کیس ہارنے کے ذمہ دار سابقہ حکومت ہے، حکومت پر عائد ہونے والے جرمانے کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ ریکوڈک کیس میں عالمی ٹربیونل نے پاکستانی الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔

اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سرمایہ کاری سے وابستہ تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز نے پاکستان کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2009ء ریکوڈک کیس میں 10 لاکھ ڈالر رشوت کی پیشکش کی تھی۔ ٹربیونل نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جواب دہندہ یعنی کہ پاکستان اپنے انفرادی الزامات میں ایسی بدعنوانی ثابت نہیں کر سکا جو دعویدار (ٹی ٹی سی ) سے منسوب ہو۔

ریکوڈیک کیس میں پاکستان کی جانب سے عائد کردہ الزامات پر 425 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں تصفیہ تنازعات کے بین الاقوامی مرکز (آئی سی ایس آئی ڈی ) نے کہا ہے کہ اس کے سامنے دعویدار کی جانب سے اپنی سرمایہ کاری کوفائدہ پہنچانے کے لیے سرکاری اہلکاروں پر ناجائز اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کوئی ثابت شدہ واقعہ سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے کہ عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (اکسڈ) نے ریکوڈک ہرجانہ کیس میں پاکستان پر تقریباً 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

پاکستان کو ہرجانے کی رقم چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی ٹیتھیان کو ادا کرنا ہوگی۔ عالمی بینک کے ٹریبونل کا فیصلہ 700 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے کے پیرا گراف 171 میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان معاہدے کو کالعدم کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین سے نابلد تھی اور ان کے پاس پیشہ وارانہ مہارت بھی نہ تھی۔