چیئرمین کمیٹی ساجد خان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس

سابقہ فاٹا کی 13 ایجنسیز کے لئے 6 ہزار 129 ملین روپے مختص کئے گئے مجموعی طور پر 6 ہزار 225 ملین روپے کے اخراجات کئے گئے،سیکرٹری آبپاشی خیبرپختونخوا کی بریفنگ

جمعہ 22 نومبر 2019 20:06

چیئرمین کمیٹی ساجد خان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 نومبر2019ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کو سیکرٹری آبپاشی خیبرپختونخوا نے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں ترقیاتی اخراجات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ فاٹا کی 13 ایجنسیز کے لئے 6 ہزار 129 ملین روپے مختص کئے گئے، مجموعی طور پر 6 ہزار 225 ملین روپے کے اخراجات کئے گئے، سیکرٹری آ بپاشی نے کہا کہ سال 2015ء سے 2019ء تک سیلاب سے محفوظ رکھنے کی سکیموں پر 1 ہزار 239 ملین روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ قریباً 5 برسوں میں 7 سو 29 ملین روپے سے 18 ٹیوب ویل نصب کئے گئے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا اجلاس بدھ کو چیئرمین کمیٹی ساجد خان کی صدارت میں جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ چیئرمین کمیٹی ساجد خان نے کہا کہ ہر ضلع میں خرچ کی گئی رقم کی الگ الگ تفصیل فراہم کی جائے بہت سی سکیموں کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ بعض سکیموں پر 7 لاکھ روپے بھی نہیں لگے مگر 70 لاکھ خرچہ ظاہر کیا گیا۔

تمام کمیٹی اراکین کے ساتھ سابقہ فاٹا کا دورہ کروں گا۔اس موقع پر رکن کمیٹی اقبال خان نے کہا ک چیک کرنا ہو گا کہ کام میرٹ پر ہوا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلی کی طرف سے پابندی کے باوجود تقرریاں تبادلے کیوں ہو رہے ہیں یہ بتایا جائے کہ پابندی کے باوجود بے ضابطگیاں کیوں ہو رہی ہیں۔ قبائلی علاقہ جات کے انضمام کے 6 ماہ بعد بھی افسران کو دفتر نہیں ملے۔

اقبال خان نے کہا کہ فاٹا ہاوس میں قائم 72 دفاتر عقوبت خانے بن چکے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک ہی حل ہے کہ پشاور میں قائم دفاتر سابقہ فاٹا میں شفٹ کئے جائیں۔باجوڑ میں پانی اور آبپاشی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس موقع پر علی وزیر نے کہا کہ فنڈز کی تفصیلات تو بتا دیں، لیکن سکیموں کی تفصیل نہیں بتائی۔سیکرٹری آ بپاشی نے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا کیلئے جوابدہ ہیں، ہم سے تفصیل کیوں مانگ رہے ہیں رکن کمیٹی مولانا جمال الدین نے کہا کہ وزیراعظم کو خط لکھا تھا کہ تمام ترقیاتی اسکیموں میں رکن قومی اسمبلی کی مشاورت شامل کی جائے،اب ایک اور حکم آ گیا کہ ادارے خود مختار ہیں، رکن صوبائی اسمبلی کو ترجیح دی گئی۔

سیکرٹری آ بپاشی نے کہا کہ عدالت نے کہا ادارے جوابدہ ہیں، تمام اسکیموں کی فیزیبلٹی نہیں بنی کہ تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔صوبہ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کھیل و سیاحت کی قبائلی اضلاع بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں کھیل کی 43 قسم کی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں سابقہ فاٹا میں ماضی کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تحلیل ہو چکا۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع اور بندوبستی علاقوں کے ضلعی ہیڈکوارٹرز میں ایک سپورٹس کمپلیکس تعمیر ہو گا، سپورٹس کمپلیکس میں ہاکی، کرکٹ، فٹبال، سکوائش، سوئمنگ،باکسنگ کے کھیلوں کی سہولیات دیں گے، سپورٹس کمپلیکس میں ہاسٹلز اور مسجد کی سہولیات بھی فراہم کریں گے۔اس موقع پر رکن کمیٹی اقبال خان نے کہا کہ کتنی زمین سپورٹس کمپلیکس کی ہے اور اس حوالے سے کتنے ٹینڈرز کیے۔

سپورٹس کمپلیکس منصوبے میں بہت کرپشن ہو رہی ہے، درکار زمین کے بارے میں بھی بتائیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میرے علاقے میں اسٹیڈیم کیلئے دو ٹینڈرز ہو چکے، اب کہتے ہیں رقم زیادہ ہے۔سیکرٹری کھیل نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں انڈر 19 گیمز شروع کر رہے ہیں کے پی کے اور فاٹا کے مستحق کھلاڑیوں کو امداد فراہم کریں گے۔ضلعی ہیڈکوارٹرز کیلئے 17 کروڑ روپے، ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز کیلئے 34 کروڑ روپے مختص کیے گئے، شاہد آفریدی سپورٹس کمپلیکس کیلئے 12 کروڑ روپے فاٹا سیکرٹریٹ خرچ کر رہی ہے بقیہ پاک آرمی خرچ کر رہی ہے۔

کمیٹی کے اجلاس میں قبائلی اضلاع کے طلباء کیلئے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں کوٹہ دوگنا کرنے سے متعلق امور بھی زیر غور آئے سیکرٹری صحت ڈاکٹر رئوف ملک نے کمیٹی کو بتایا کہ فاٹا کے طلبائ کیلئے کوٹہ دوگنا کرنے کے معاملہ پر تمام صوبے رضامند ہیں،پاکستان میڈیکل کمیشن کی شرط ہے کہ خیبرپختونخوا کے میڈیکل، ڈینٹل کالجز کی انسپیکشن کروائیں۔

سیکرٹری صحت کے پی کے نے کہا کہ صوبے میں انضمام شدہ علاقوں میں کوئی اے کیٹگری ہسپتال نہیں،کرم، باجوڑ اور شمالی وزیرستان کے ہسپتالوں کو 500 بستر کے ہسپتال میں تبدیل کر رہے ہیں،خیبرپختونخوا میں طلباء کیلئے ایم بی بی ایس کی نشستوں کی تعداد 120، بی ڈی ایس کیلئے 136 ہے۔انہوں نے کہا کہ طلباء کا کوٹہ دوگنا ہوا تو تعداد 512 ہو جائے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سیفران نے اسی مسئلہ پر 7 دسمبر کا وقت دے رکھا ہے جو سفارشات سینیٹ کمیٹی کی ہیں وہی ہماری ہیں، معاملے کو 2017ء کی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں جلد نمٹایا جائے۔