آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سپریم کورٹ نے مشروط رضامندی ظاہر کر دی

آپ نے کہا کہ قانون سازی کے لیے تین ماہ چاہئیں، ہم تین ماہ کے لیے توسیع کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 28 نومبر 2019 10:41

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سپریم کورٹ نے مشروط رضامندی ظاہر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 نومبر 2019ء) : آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہورہی ہے۔ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ کر رہا ہے۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر مشروط رضامندی ظاہر کر دی ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے کہا ہے قانونی سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں، ہم 3 ماہ کےلئے اس کی توسیع کردیتے ہیں۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل انورمنصور سے استفسار کیا کہ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کےکاغذات اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کیسے ہوئی تھی ؟ عدالت نے اس حوالے سے دستاویزات بھی طلب کر لیں اور کہا کہ آپ نے کل فرمایا جنرل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا ، بتایا جائے کہ راحیل شریف نے اپنا عہدہ کیسے چھوڑا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹسنے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتے تو انہیں پنشن بھی نہیں ملتی ہوگی، آپ دستاویزات منگوالیں تو15منٹ بعدکیس سن لیتے ہیں ، اس دوران ہم دیگرکیسزسن لیتے ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سماعت کا 15منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاوہ کاغذات منگوالئے جو ہم نے کہے تھے؟ جس پر ،اٹارنی جنرل انورمنصور نے جواب دیا کہ جی کاغذات سے متعلق بول دیا ہے وہ آرہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نےآرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق نئی سمری پیش کردی ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کچھ اور بھی فرمانا ہے یا بس، سوال یہ ہے اب آپ نے جوطریقہ کار اختیار کیا وہ درست یا نہیں ، اب مکمل طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے، اب آپ عدالت کومطمئن کریں کہ یہ طریقہ کاردرست ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس سمری میں آپ عدالت کو کیوں بیچ میں لارہےہیں، یہ تویوں لگ رہا ہے سپریم کورٹ احکامات پریہ سب ہورہاہے، آپ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ، عدالت کا کندھا کیوں استعمال کر رہےہیں، یہ آپ کااپنا معاملہ ہے اس میں ہمارا ذکر نہ کریں، ہمارا ذکر اس سمری سے باہر نکالیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نے 28 نومبر کی تقرری کردی ہے، آج تو اسامی خالی نہیں ہوئی تو اس پر تقرری کیسے ہوگئی، اس طریقہ کار اور آج کی تاریخ میں کوئی غلطی نہیں ہے، ہمیں نظر آرہا ہے کہ آپ نے کل معاملے پرغورکیاہے ، تقرری ہوتی ہی آئین کےمطابق ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا تاثر دینے کی کوشش نہ کی جائے کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر کیا جارہا ہے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی جانب سے جو سوالات اٹھائے گئے تھے ان پر عدالت کو مطمئن کیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہونے والی تقرری پہلے سے کیسے مختلف ہے؟ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے، چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ہم آئین اور قانون کے مطابق کیس کی سماعت کررہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر اعلی عدلیہ کے خلاف پراپگینڈہ شروع کردیا گیا، عدالت نے نئی سمری پر کہا کہ لگتا ہے کہ آپ اب درست راستے پر آتے نظر آرہے ہیں۔

چیف جسٹس نے مشروط رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ آپ 3ماہ میں قانون سازی کرلیں گے تو ہم 3 ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دے دیتے ہیں ۔جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان کابہت احترام ہے،ہمیں آئین وقانون کا سب سے زیادہ احترام ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مہربانی کرکے 6 ماہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کے کہنے پر لکھ دیں کہ تین ماہ کے اندر قانون سازی کریں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ مدت کا تعین نہ کریں، ہم کام کر لیں گے۔ جس کے بعد بینچ نے مشاورت کے لیے عارضی طور پر سماعت ملتوی کرکے مشاورت شروع کردی اور کیس کا فیصلہ محفوظ کر دیا۔