بغداد میں حکومت مخالف مظاہرین کے کیمپ پر مسلح افراد کا حملہ 12 افراد ہلاک

عراقی فورسز کے کریک ڈاﺅن میں 430سے زائد مظاہرین ہلاک اور ہزاروں افراد زخمی ہوچکے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 7 دسمبر 2019 13:19

بغداد میں حکومت مخالف مظاہرین کے کیمپ پر مسلح افراد کا حملہ 12 افراد ..
بغداد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 دسمبر ۔2019ء) عراق کے دارالحکومت بغداد میں حکومت مخالف مظاہرین کے کیمپ پر مسلح افراد کے حملے کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں. غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق دارالحکومت بغداد میں السینک پل کے قریب واقع عمار ت میں حکومت مخالف مظاہرین کئی ہفتوں سے مقیم تھے، مسلح افراد نے مظاہرین کے کیمپ پر جمعہ کی رات کو حملہ کیا گیا‘عینی شاہدین کے مطابق مسلح افراد نے مظاہرین کو عمارت خالی کرنے کا کہا لیکن انکار پر پک اپ ٹرک میں سوار مسلح افراد نے عمارت پر دھاوا بول دیا جس نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے.

یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ مسلح افراد کا تعلق کسی سیاسی یا ملیشیا گروپ سے ہے تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے‘واضح رہے کہ یکم اکتوبر سے بدعنوانی، بے روزگاری اور عوامی خدمات کی عدم دستیابی کے خلاف بغداد اور ملک کے جنوب میں ہلچل مچی ہوئی ہے. عراق کی سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاﺅن میں اب تک 430سے زائد مظاہرین ہلاک اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں‘دو ماہ سے زائد پرتشدد مظاہروں کے بعد عراق کے وزیراعظم نے چند روز قبل مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود عراق میں مظاہرے جاری ہیں.عراق میں یکم اکتوبر سے جاری مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے خلاف پر تشدد احتجاج میں اب تک 430 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں‘عراق میں رواں سال یکم اکتوبر کودارالحکومت بغداد اور جنوبی شہروں میں احتجاج شروع ہوا تھا، پولیس کی جانب سے بغداد کے تحریر اسکوائر اور دیگر شہروں میں مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک ہوئے.

مظاہرین کی ہلاکتوں کے بعداگلے روز احتجاج کا دائرہ وسیع ہوکر ملک کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا، اس دوران ’صدر تحریک‘ کے سربراہ مقتدی الصدر نے مظاہرین کی حمایت اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا‘3 اکتوبر کو بغداد اور دیگر شہروں میں کرفیو کے باوجود ہزاروں مظاہرین نے سڑکیں بندکیں اور ٹائروں کو نذر آتش کیا، احتجاج کے باعث عراقی وزیراعظم نے اصلاحات تیز کرنے کا اعلان کیا لیکن مظاہرین پر وحشیانہ تشدد اور ہلاکتوں کے بعد سیاسی و مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے حکومت سے استعفے کا مطالبہ کردیا.

6 اکتوبر کو ایک بار پھر کابینہ نے اصلاحات کی یقین دہانی کرائی تاہم 2 ہفتوں بعد 24 اکتوبر کو ایک بار پھر ا±س وقت پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جب عادل المہدی کی حکومت نے ایک سال پورا کیا‘مظاہرین نے مخلف شہروں میں سرکاری و سیکیورٹی فورسز کی عمارتوں اور دفاتر پر قبضہ کرلیا جس کے باعث سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں.

پرتشدد مظاہروں کے بعد 28 اکتوبر کو طلبہ،سکول کے بچوں اور پروفیسرز نے بغداد اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے جس کے بعد صدر برہم صالح نے قبل از وقت انتخابات کرانے اور وزیراعظم کے استعفے کا عندیہ دیا‘3 نومبر کو عراقی شہر کربلا میں مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ اس ساری صورتحال میں ایران عراقی حکومت کی پشت پناہی کررہی ہے جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا، اس دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 4 افراد ہلاک ہوئے.

عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے 5 نومبر کو قبل ازوقت انتخابات کے مطالبے کو غیرحقیقی قرار دیا‘17 نومبر کو ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی گئی اور ہزاروں افراد نے احتجاج کیا جبکہ 26 نومبر کو بغداد میں بم دھماکے میں 6 افراد ہلاک ہوئے اور دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی. 27 نومبر کو عراقی شہر نجف میں مظاہرین نے ایرانی قونصل خانے کو آگ لگادی تاہم عملہ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا۔

(جاری ہے)

اس دوران مظاہرین نے ایران عراق سے نکل جاﺅکے نعرے بھی لگائے‘اسی روز عراق بھر میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 46 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے صرف ناصریہ شہر میں 2 درجن سے زائد افراد کو ہلاک کیا.

29 نومبر کو ناصریہ شہر میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں مزید 15 مظاہرین جاں بحق ہوئے جبکہ مشتعل مظاہرین نے پولیس اسٹیشن اور متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا‘عراقی شہر نجف میں اب بھی سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے. گزشتہ روزجمعہ کے خطبے میں عراقی مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے نئی حکومت کا مطالبہ کیا اور مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا جس کے کچھ ہی دیر بعد عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ میں استعفیٰ پیش کرنے کا فیصلہ کیا.