سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی بحالی اور انہیں منافع بخش بنانے کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے‘

پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر منتقل کیا جارہا ہے، سٹیل ملز کی 334 ایکڑ اراضی چائنہ کٹنگ کے ذریعے قبضے میں لی گئی تھی، پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ کا قومی اسمبلی میں جواب

بدھ 12 فروری 2020 13:58

سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی بحالی اور انہیں منافع بخش بنانے کے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 فروری2020ء) قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی بحالی اور انہیں منافع بخش بنانے کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے‘ پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر منتقل کیا جارہا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شازیہ مری اور دیگر ارکان کے سوالوں کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری کاروباری اداروں کو منافع بخش بنانے کے لئے بعض اداروں کو آپس میں ضم کیا جارہا ہے۔

پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان سٹیل ملز نجکاری کی فعال فہرست میں آچکا ہے۔ اس کے لئے مشاورتی بورڈ بن گیا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر چلانے کے لئے 13 کمپنیوں نے اظہار دلچسپی کے عمل میں حصہ لیا جن میں بیشتر غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔

یوٹیلٹی سٹورز کے لئے اب تک 17 ارب روپے کا پیکج دیا جاچکا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی سیل میں نمایاں اضافہ ہوا۔ علی گوہر کے ضمنی سوال پر انہوں نے بتایا کہ وزارت صنعت و پیداوار کار ساز کمپنیوں کی پرائس میکنزم کو کنٹرول کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ وزارت صرف مسابقت کا ماحول پیدا کرتی ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے اقدامات کی بدولت اس سیکٹر میں 17 کمپنیاں آئی ہیں اور اس شعبے میں ایک ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔

حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان گاڑیاں برآمد کرنے کے بھی قابل ہو سکے گا۔ گاڑیوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کے ساتھ بھی مفاہمت کی دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ رائے محمد مرتضیٰ اقبال کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان سٹیل ملز کی سو فیصد نجاری نہیں ہوگی بلکہ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر منتقل کیا جائے گا۔

سٹیل ملز کے ساتھ بہت سارے مسائل تھے۔ 2013ء سے ابھی تک ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا کیس بھی چل رہا ہے اور بالآخر اس کا بوجھ بھی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جون 2020ء تک سٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا طریقہ کار طے ہو چکا ہے۔ سٹیل ملز کی 334 ایکڑ اراضی چائنہ کٹنگ کے ذریعے قبضے میں لی گئی تھی جن میں سے سو ایکڑ اراضی واپس کی گئی ہے۔ باقی اراضی کی واپسی کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت سٹیل ملز کو کسی بھی طریقے سے چلانا چاہتی ہے۔