رزق حلال کمانے والوں میں اولین طبقہ کاشتکار ہے، پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور اقتصادی ترقی کیلئے زراعت ہی وہ شعبہ ہے جو ملک کو معاشی دلدل سے نکال سکتا ہے،

زرعی ملک میں انڈسٹریلائزیشن سمجھ سے بالاتر ہے، ہمیں اپنے محفوظ مستقبل کیلئے ایگرو زراعت کی طرف جانا ہو گا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا زراعت پر قومی ڈائیلاگ کے اختتامی سیشن سے خطاب

جمعرات 12 مارچ 2020 20:34

رزق حلال کمانے والوں میں اولین طبقہ کاشتکار ہے، پاکستان کو درپیش چیلنجز ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 مارچ2020ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ رزق حلال کمانے والوں میں اولین طبقہ کاشتکار ہے، پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور اقتصادی ترقی کیلئے زراعت ہی وہ شعبہ ہے جو ملک کو معاشی دلدل سے نکال سکتا ہے، زرعی ملک میں انڈسٹریلائزیشن سمجھ سے بالاتر ہے، ہمیں اپنے محفوظ مستقبل کیلئے ایگرو زراعت کی طرف جانا ہو گا۔

جمعرات کو زراعت پر قومی ڈائیلاگ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر غربت دیکھنی ہے تو پسماندہ علاقوں میں نظر آئے گی جہاں کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے، ملک میں روزگار پیدا کرنا ہے، غربت کی لکیر سے باہر آنا ہے، پاکستان کو خوشحال بنانا ہے تو کاشتکار کی طرف وسائل منتقل کرنا ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اس قسم کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس سے وسائل کی منتقلی ہوئی، توازن نہ ہونے کی وجہ سے ایک طبقہ خوشحال اور زرعی شعبہ سے وابستہ خوشحال طبقہ بدحال ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی زرعی خامیوں کا ادراک کرنا ہو گا، اس بیمار شعبہ کو ایک طبیب کی ضرورت ہے اور پاکستان کی پارلیمان یہ طبیب ثابت ہو سکتی ہے، پارلیمان کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر یہ ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ کہ تمام ایوان کو یک زبان ہوکر سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ اس مشن میں کھڑا ہونا ہو گا اور پارلیمان اس پر تیار بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی مکالمے میں یہ تجویز دی گئی کہ آئندہ بجٹ کسان دوست ہونا چاہئے تاہم یہ ذمہ داری اکیلا وفاق ادا نہیں کر سکتا، زراعت کا شعبہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے ، وفاق اگر درست فیصلے کر بھی لے تو جب تک صوبے اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے یہ سود مند نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کا انحصار پنجاب اور سندھ پر ہے، صوبوں اور وفاق کے درمیان مربوط کاوشوں کے بغیر اس سے فائدہ نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک بڑا چیلنج روزگار کے سلسلہ میں آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کا ہے، اگر اس کو نہ روکا گیا تو اس کے بھیانک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے زرعی تحقیقات کے اداروں سے قوم کو کیا حاصل ہو رہا ہے جبکہ سرکاری خزانے سے اربوں روپے صرف ہو رہے ہیں، اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک فیز ٹو میں زراعت پر ورکنگ گروپ بنایا گیا ہے، چین زرعی شعبہ میں ہماری مدد کر سکتا ہے، ہماری مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں، اس کے جواب میں ہمیں عام کھجور سمیت دیگر مصنوعات چین کو برآمد کرنا ہوں گی۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ گو کہ پاکستان میں بننے والی چینی ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہے لیکن ہم یہ چینی درآمد کرنے پر تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی سنجیدگی سے ہم غافل نہیں ہیں، اس پر ہم نے قومی اسمبلی میں قراردادیں بھی پاس کی ہیں جبکہ اسی سے جڑا ہوا مسئلہ پانی کا ہے، پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے، ہر وفاقی بجٹ میں واٹر ہارویسٹنگ ٹیکنالوجیز کیلئے بات ہوتی ہے تاہم زمین پر پیشرفت کے غیر جانبدارانہ تجزیہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہائی ویلیو زرعی اجناس کا 25 سے 30 فیصد مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے، کسانوں کو مارک اپ پر قرضہ دیا جاتا ہے، اس سے ہماری برآمدات میں کیسے اضافہ ہو گا، اس میں کمی ہونی چاہئے، جو شعبہ 40 فیصد ٹیکس دیتا ہے اس کے مقابلہ میں 17 فیصد ٹیکس دینے والے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی ترجمانی اور اور آواز اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک اس پر بات نہیں کرتے، زرعی اجناس پر سپورٹ پرائس دینے کی بات کرنے پر آئی ایم ایف ناراض ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہنرمند قوم چاہئے، زراعت کا شعبہ خواتین کے بغیر چل ہی نہیں سکتا، کسانوں کے درمیان پیداواری خلیج کو ختم کرنا ہو گا، اگر ہم یہ کام کر سکیں تو پاکستان دنیا میں اشیاخوردونوش برآمد کرسکتا ہے، ہم نے ویلیو ایڈیشن کی طرف بطور قوم توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک کی زرعی معیشت کی صورتحال پر بحث کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس بحث میں اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا شروع کر دیا تو پھر معاشی صورتحال پر ہونے والی بحث فائدہ مند نہیں ہو سکتی، اس کیلئے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوں گے، ہمیں جماعتی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس پر توجہ دینا ہو گی۔