اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس، کارکے ریفرنسز ،دیگر کیسوں میں 24 ملزمان کی ضمانت منظور کر لی

جمعرات 26 مارچ 2020 19:00

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس، کارکے ریفرنسز ،دیگر کیسوں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مارچ2020ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی جانب سے دائر جعلی بینک اکاؤنٹس، مضاربہ اور کارکے ریفرنسز سمیت دیگر کیسوں میں قید 24 ملزمان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کورونا وائرس ایمرجنسی کے پیش نظر نیب کے 27 ملزمان کی جانب سے دائر ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب حسن اکبر تارڑ عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی مخالفت کی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون میں آرٹیکل چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ نے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا جو اس کے پاس نہیں تھا۔

(جاری ہے)

ہم واضح کرتے ہیں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا بلکہ تمام درخواستیں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے موصول ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سخت نامساعد حالات میں بھی نہ عدالتیں بند ہوں گی نہ بنیادی انسانی حقوق متاثر کرنے دیں گے۔ دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ارسلان اور عثمان کی درخواستوں کے حوالے سے دائرہ کار ابھی طے ہونا ہے جو ملزم وائرس سے متاثرہ ہو اسے رہا کر دیں، اس کی حد تک ہمیں کوئی اعتراض نہیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پھریہ کرتے ہیں کہ نیب تفتیشی افسران کو جیل میں بٹھا دیتے ہیں، وہ وہاں جا کر تفتیش کریں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں، اقدامات بھی غیر معمولی کرنے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب اس غیر معمولی صورتحال میں بھی ملزمان کی ضمانت کی مخالفت کر رہا ہے، تمام ملزمان کی سکریننگ کرکے ہی جیل سے رہا کیا جائے گا، اگر اسی طرح ہی ہے تو تفتیشی اپنی ٹیم کے ہمراہ جیل میں جا کر تفتیش کر لیں، آج بھی بنیادی حقوق متاثر ہونے میں دنیا کے انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 120 ہے۔

دوران سماعت عدالت عالیہ نے نیب سے استفسارکیا کہ یہ وہ ہیں جو کمزور ہیں آپ نے کبھی کسی مضبوط آدمی کو اندر کیا ہی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ جو لوگ قید میں ہیں ان کی عمریں کیا ہیں، ہم نے جو دیکھا اس کے مطابق عمریں زیادہ ہیں،نیب کیسز میں پارلیمنٹ نے زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال رکھی ہے، بطور تفتیشی نیب کی سوچ فئیر ہونی چاہئے، آپ ٹرائل کرکے زیادہ سے زیادہ سزا دلوائیں۔

دوران سماعت ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہاکہ قیدیوں کا کورونا وائرس ٹیسٹ کرایا جائے اور متاثرہ ملزمان کو رہا کر دیا جائے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ انڈر ٹرائل ملزمان کو جیل میں قید کیوں رکھنا چاہتے ہیں جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ٹیسٹ پازیٹو آنے تک باقی قیدیوں میں بھی وباء پھیل گئی تو ذمہ دار کون ہو گا تفتیشی افسر کواڈیالہ جیل کی بیرک میں ہی تفتیش کرنے کے احکامات جاری کردیتے ہیں،آپ کو معلوم ہے کہ جیل کی ایک بیرک میں کتنے قیدیوں کو رکھا جاتا ہی چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انڈر ٹرائل ملزمان جرم ثابت ہونے پر سزا ملنے تک بے گناہ تصور ہوتے ہیں،ان جرائم میں جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے، سزائے موت نہیں۔

عدالت عالیہ نینیب ملزمان مصطفی ذوالقرنین مجید، خواجہ محمد سلیمان ،حسین لوائی، نجم الزمان طحہ رضا، فیصل ندیم، امان اللہ، ڈاکٹر ڈنشاہ، نعمان قریشی، لیاقت علی، عباس علی، نجم الزمان،جاوید اختر عبد الجبار، محمد عارف،جمیل احمد، محمد عمیر، جمیل، وحید احمد، کاظم علی، عادل بٹ اور مطیع الرحمن سمیت 24 ملزمان کی ضمانت منظور کرنے کا حکم سنایا جبکہ 3 ملزمان آفتاب احمد،سید ارسلان اور محمد شبیرکے ریفرنس راولپنڈی میں ہونے کے باعث دائرہ اختیار نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔