لاہور ہائیکورٹ کا جیل حکام کو کورونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی ضمانتیں دائر کرنے کا حکم

میڈیا عوام میں آگاہی مہم چلائے اور عوام میں خوف مت پھیلائے،مکمل ہدایات کے ساتھ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہوگا‘ لارجر بنچ لوکل انتظامیہ چائنہ کے ماڈل کی پیروی کرے اور سرکل بنائیں تاکہ لوگ اس میں کھڑے ہو کر اشیاء خریدیں‘ جسٹس عائشہ اے ملک آٹے کی کمی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ،نظر رکھی جائے فل بنچ کاپنجاب میں آٹے کی کمی سے متعلق اطلاعات پر تشویش کا اظہار شاید حکومت چاہتی ہے یہ کیس روز چلے ،اپنے فیصلے میں حکومت کی غفلت کے بارے میں لکھیں گے ‘چیف جسٹس محمد قاسم خان کے ریمارکس

جمعہ 27 مارچ 2020 20:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2020ء) لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے جیل حکام کو کورونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی ضمانتیں دائر کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ میڈیا سے کہیں گے کہ عوام میں آگاہی مہم چلائے اور عوام میں خوف مت پھیلائے۔چیف جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں فل بنچ نے کورونا وائرس سے متعلق کیس نمٹا دیا اور ریمارکس دئیے کہ مکمل ہدایات کے ساتھ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہوگا۔

دوران سماعت عدالت میں سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ، سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل اورایڈوکیٹ جنرل پنجاب پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی تفصیلات عدالت پیش کردیں جس میں بتایا گیا کہ مارچ میں بیرون ملک سے 13493پاکستانی واپس آئے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ حکومت پنجاب دیہاڑی دار، مزدور، رکشہ ڈرائیور اور یومیہ کمانے والوں کو راشن دے گی۔

جس پر چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ سبزی منڈی اور غلہ منڈی کو کھلا رہنا چاہیے، منڈیوں میں کچھ مسائل ہیں کہ وہاں رش بہت ہوتا ہے حکومت اس پر فوری توجہ دے،فوڈ چین جاری رہے وہ کسی صورت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔بنچ میں شریک جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دئیے کہ لوکل انتظامیہ چائنہ کے ماڈل کی پیروی کرے اور سرکل بنائیں تاکہ لوگ اس میں کھڑے ہو کر اشیاء خریدیں۔

فل بنچ اس اس امر پر تشویش کا اظہا رکیا کہ پنجاب میں آٹے کی کمی سے متعلق سننے میں آرہا ہے کہ اب مارکیٹ میں آٹے کی کمی ہو گئی ہے ۔جسٹس شجاعت نے کہا کہ آٹے کی کمی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ،ایس ایچ او اپنے علاقے پر نظر رکھے اور ذخیرہ اندوزی کو روکے ،ڈپٹی کمشنر بھی آٹے کے معاملے کو فوری دیکھیں اورآٹے کی دستیابی یقینی بنائیں ۔دوران سماعت پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے فریق بننے کی استدعا کی گئی۔

پی ایم اے نے کہا ڈاکٹرز کی لمبی ڈیوٹیز ہیں ،عدالت ڈیوٹی محدود کرنے کے احکامات جاری کرے کیونکہ لمبی ڈیوٹی سے ڈاکٹرز کے لیے وائرس کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھے اپنے سے زیادہ میرے سول ججز اور دیگر ججز کی فکر ہے، میں نے ابھی آپ کی فائل پکڑی ہے کیا مجھے خطرہ نہیں لیکن ہم سب مل کر کام کر رہے ہیں۔سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کیپٹن (ر)محمد عثمان نے عدالت کو بتایا کہ جب کوئی ہمارے پاس کیس پازیٹو آتا ہے تو ہم اسے فوری قرنطینہ کردیتے ہیں اورپازیٹو آنے والے مریض کا ڈیٹا اکٹھے کرتے ہیں اور اس سے ملنے والے تمام افراد کو گھروں میں قرنطینہ کردیتے ہیں۔

سیکریٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نیبل اعوان نے عدالت کو بتایا کہ اگر کسی شخص کو حکومت کی قرنطینہ پسند نہیں آتا تو وہ پرائیوٹ جا سکتے ہیں۔پڑھے لکھے لوگ بھی ضد کر رہے ہیں اور کہتے ہیں والدین سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔نیبل اعوان نے بتایا کہ لوگوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ان کو بتانا بھی پڑتا ہے آپ فی الحال کسی سے نہیں مل سکتے۔فاضل بنچ نے استفسار کیاکہ بیرون ملک سے اور کتنے لوگ آنا باقی ہیں۔

جس پر بتایا گیا کہ 4407 لوگ ایران گئے تھے جس میں 317 لوگ پاکستان آنا باقی ہیں ۔فاضل بنچ استفسار کیا کہ بتائیں یکم جنوری سے 12 فروری تک کتنے لوگوں کی ائیرپورٹ پر سکریننگ کی گئی ۔حکومت کو پتا تھا کہ چین میں یہ وبا ء آ چکی ہے پھر حکومت نے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کیے ۔چیف جسٹس نے وفاق کے وکیل سے کہا کہ آپکے پاس تو مکمل ڈیٹا نہیں ہے یا آپ عدالت کی درست معاونت نہیں کرنا چاہتے ۔

ہم اس کیس کو آج ہی نمٹانا چاہتے ہیں لیکن شاید حکومت چاہتی ہے یہ کیس روز چلے ۔بظاہر لگ رہا ہے حکومت عدالت سے اعدادوشمار چھپانا چاہتی ہے اور معاملات چھپانا چاہتی ہے ۔جب تک حکومت کے پاس ڈیٹا نہیں ہو گا حکومت کیسے اس وبا ء پر قابو پائے گی۔لگتا ہے آج آپ عدالت سے وفاقی حکومت کے لیے کوئی آبزرویشن لینا چاہتے ہیں ۔چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ ہم اپنے فیصلے میں حکومت کی غفلت کے بارے میں لکھیں گے ۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت قیدیوں کی رہائی سے متعلق حکومت ہنگامی بنیادوں پر پالیسی بنائے ۔جو قیدی جرمانے یا دیت کی رقم نہیں دے سکتے انکے لیے حکومت نے کیا کیا ہے ۔کوشش کریں سات دن میں قیدیوں کی رقم ادا کر کے ان قیدیوں کو رہا کریں۔مخیر حضرات سے رابطہ کر کے قیدیوں کی دیت یا جرمانے کی رقم ادا کی جا سکتی ہے ۔انڈر ٹرائل تمام عورتوں اور بچوں کو جیلوں سے فوری کر دیا جائے ۔