دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرشروع کرنے کا فیصلہ ملکی مفاد کے عین مطابق ہے،

بجلی پیداوار میں اضافہ، ملک میںپانی کی کمی نصف رہ جائے گی،میاں زاہد حسین

پیر 18 مئی 2020 23:42

کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 مئی2020ء) ایف پی سی سی آئی بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اورپاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کے پہلے مرحلے کی تعمیر کے آغاز کا فیصلہ موجودہ حالات میں درست اور ملکی مفاد کے عین مطابق ہے، یہ ڈیم زرعی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا جبکہ اس سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہو گی جس سے سماجی اور اقتصادی ترقی یقینی بنائی جا سکے گی۔

میاں زاہد حسین نے پیر کو بزنس کمیونٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت پانی کی کمی 12 ملین ایکڑ فٹ ہے جو اس ڈیم کے تعمیر کے بعد نصف رہ جائے گی کیونکہ اس میں 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہو گا ، بارہ لاکھ ایکڑ سے زیادہ بنجر زمین سیراب ہو سکے گی جبکہ1960 میں تعمیر ہونے والے تربیلا ڈیم کی زندگی میں پینتیس سال کا اضافہ ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

اس ڈیم کی تعمیر سے تعمیراتی سامان تیار کرنے والی صنعتیں اور خدمات فراہم کرنے والے شعبے ترقی کریں گے جبکہ ساڑھے سولہ ہزار افراد کو روزگار بھی ملے گا۔

تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد ملک نے زبردست ترقی کی مگر بعدمیں آنے والی حکومتوں نے پن بجلی کو نظر انداز کرتے ہوئے درآمدی ایندھن سے بجلی بنانے والے مہنگے منصوبوں کو ترجیح دی جبکہ سرمایہ کاروں کو بے اندازہ منافع دیا جس سے بجلی بہت مہنگی ہو گئی ، خوفناک گردشی قرضہ نے جنم لیااور ملک کا اقتصادی مستقبل سخت خطرات سے دوچار ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ 2000ء میںپن بجلی کی اہمیت کا ادراک کیا گیا اورکافی ورکنگ کے بعد وژن 2020 کے نام سے ایک منصوبہ بنایا گیا جس میں 2020 ء تک مختلف ڈیم بنا کر بجلی کی پیداوار میں بیس ہزار میگاواٹ کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر اس منصوبے پرقومی اہمیت کے حامل دیگر درجنوں منصوبوں کی طرح عمل درآمد نہ ہو سکا،اگر اس منصوبے پر عمل کیا جاتا تو ملک میں پانی یا سستی بجلی کی کوئی کمی نہ ہوتی، آلودگی اور آئل امپورٹ بل کم ہوتا اور پیداواربرآمدات اور روزگار بڑھ رہا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے آغاز سے پن بجلی کے منصوبے دوبارہ فوکس میں آ گئے کیونکہ چینی حکومت اور سرمایہ کار قلیل المدتی فوائد سمیٹنے کے بجائے طویل المیعاد فوائد پر نظر رکھتے ہیں ۔انہوں نے رینٹل پاور کے چکر میں پڑنے کے بجائے گیس ،کوئلے اور پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں کو ترجیح دی، اس وقت پن بجلی کے متعدد منصوبے زیر تعمیر ہیں جن کے مکمل ہونے پر پن بجلی کی پیداوار دگنی ہو کر دس ہزار میگاواٹ ہو جائے گی تاہم وژن 2020 کے اہداف 2030 تک بھی حاصل کر لئے گئے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کوشش کرے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر وقت پر ہو تاکہ اربوں روپے کا زیاں نہ ہو اور بیوروکریسی کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تاریخ دہرانے کا موقع نہ ملے۔