بھارت کے نیپال اور چین کے ساتھ حالیہ مسائل بھارتی فوجیوں کے لیے مایوس کن مورال کا اظہار بن گئے

بدھ 27 مئی 2020 00:10

بھارت کے نیپال اور چین کے ساتھ حالیہ مسائل بھارتی فوجیوں کے لیے مایوس ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مئی2020ء) بھارت کے نیپال اور چین کے ساتھ حالیہ مسائل بھارتی فوجیوں کے لیے مایوس کن مورال کا اظہار بن گئے، حالیہ اقدامات کے بعد بھارتی افواج بڑی حد تک اخلاقی ساکھ سے محروم فوج بن چکی ہے، حال ہی میں بھارت کے نیپال اورچین کے ساتھ بعض مسائل سامنے آئے ہیں، جہاں تک بھارت اور نیپال کے درمیان کشیدگی کا تعلق ہے تو بھارت کی طرف سے کھولی گئی ایک نئی سڑک جومتناعہ علاقہ سے گزرتی ہے، نے دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعہ پیداکردیاہے۔

یہ رابطہ سڑک بھارتی ریاست اترکھنڈ کے علاقہ دھرچلا کو چین کے ساتھ بھارت کی سرحدلائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب لیپولیکھ پاس سے ملاتی ہے،بھارت کا کہنا ہے کہ یہ سڑک کیلاشمن سرورارجانے والے یاتریوںکو سہولت فراہم کرے گی ۔

(جاری ہے)

بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ اس سے سفر کے دورانیہ میں نمایاں کمی آجائیگی۔ لیپولیکھ پاس کے جنوبی طرف کالاپانی نامی علاقہ بھارت اورنیپال کے درمیان متنازعہ ہے ۔

لیپولیکھ پاس چین کے ساتھ سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول پرواقع ہے جو سٹریٹجک اہمیت کاعلاقہ ہے، مبصرین کو اس بات پریقین ہے کہ نئی سڑک کھولنے کے بھارتی اقدام کا مقصدچینیوں کی نقل وحرکت کی نگرانی کرنا ہے اگرچہ بھارتی حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ سڑک یاتریوں کی سہولت کیلئے بنائی گئی ہے ۔1816 میں برطانوی ہندوستان اورنیپال کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت کالاپانی سے گزرنے والے دریائے مکھیلی کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سرحد قراردیاگیاہے تاہم دریائے مکھیلی کے کئی معاون دریاء اسی مقام پراس سے ملتے ہیں۔

اس وجہ سے بھارت یہ دعویٰ کرتاہے کہ دریائے مکھیلی کاآغاز کالاپانی سے ہوتا ہے، لیکن نیپال کادعویٰ ہے کہ دریائے مکھیلی کاآغاز لیپولیکھ پاس سے ہوتاہے جو اس کے بہت سے معاون دریاوں کا منبع ہے، چین اور بھارت کے درمیان 3500 کلومیٹرطویل سرحدہے جس کی باقاعدہ نشاندہی نہیں کی گئی ہے، یہ سرحد کوہ ہمالیہ کے دشوار گذار سلسلہ سے گزرتی ہے چین نے تبت اوراقصائے چین میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیاہے اورسڑکوں کا جال بچایاہے تاکہ ان کو سرحد تک باآسان رسائی ہوسکے۔

ویسے ہی اقدامات بھارت نے بھی اپنے علاقہ میں کئے ہیں، بھارتی میڈیا کے مطابق چین نے بھارت کے زیرقبضہ لداخ کے علاقہ میں کیمپ قائم کئے ہیں بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بھارت کا علاقہ ہے اورمبینہ طورپر5 ہزارچینی فوجی وہاں پرمقیم ہیں ۔لیپولیکھ کے علاقہ میں بھارت کا نیپال کے ساتھ تنازعہ چل رہاہے ۔2017ء میں ڈوکلم کے علاقہ میں بھارت اورچین کے درمیان ایسا تنازعہ پیداہوچکاہے ۔

اس وقت تین مقامات پردبائو بڑھ رہاہے ۔ ایک توچین سکم بارڈرپر، دوسرے بھارت نیپال بارڈرپر اورتیسری لداخ ریجن میں جہاں بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چین نے ایک جھیل اورایک دریاء پرقبضہ کرلیاہے جہاں تک بھارتی آرمی چیف کا تعلق ہے انہوںنے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ مذکورہ بالا تینوں مسائل کا آپس میں کوئی تعلق نہیں زیادتی دونوں طرف سے کی گئی ہے اورمعاملات جلد طے پاجائیں گے۔

اب بھارتی تجزیہ کارکہہ رہے ہیں کہ بھارتی آرمی چیف کویہ بیان نہیں دینا چاہئیے تھا۔انہیں چین کا آلہ کارنہیں بننا چاہئیے تھا۔بنیادی طورپربھارت نے چین کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور صورتحال یہ ہے کہ چین علاقہ پرقبضہ کرچکاہے اوربھارت کو شرمندگی کاسامناہے یہاں یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ نریندرامودی سے لیکراجیت ڈوول ، بپن راوت حتی کہ بھارتی آرمی چیف جو دیگرمعاملات میں میڈیا کے سامنے آنے کے شوقین ہین لیکن اس بارے میں انہوں نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا۔

اگر بھارت آگے بڑھتاہے تونتائج خطرناک ہوسکتے ہیں حتیٰ کہ جنگ بھی ہوسکتی ہے اگرچہ یہ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن فوجی تصادم ہوسکتاہے اوریہ خطہ کوعدم استحکام سے دوچارکرسکتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا اب یہ دعوے کررہاہے کہ چینیوں نے کچھ بھارتی فوجیوں کوان کے اسلحہ سمیت کچھ دیر کیلئے یرغمال بنائے رکھا اور پھر انہیں چھوڑدیا۔ یہاں یہ ذکربھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کوپاکستان نے تھوڑی دیر کیلئے حراست میں رکھا تھا۔

بھارت محض الفاظ اوراصطلاحات کو بدل کرحقائق کو تبدیل نہیں کرسکتا۔چینیوں نے بھارتی فوجیوں کو جنگی قیدی بنایالیکن اب وہ کہہ رہے ہیں کہ بھارتی فوجیوں کو تھوڑی دیر کیلئے حراست میں رکھا گیا یہ بھارتی فوجیوں کیلئے مایوس کن مورال کا اظہار ہے۔جو اب بڑی حد تک اخلاقی ساکھ سے محروم فوج بن چکی ہے۔مسائل کو حل ہونا چاہئیے لیکن لگتاہے ایسا آسانی سے نہیں ہوگا۔