آئس لینڈ میں امریکی سفیر کو کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دینے سے متعلق دوبارہ ٹویٹ کرنے اور انتشار پھیلانے پر تنقید کا سامنا

پیر 27 جولائی 2020 13:06

ہیلسنکی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 جولائی2020ء) یورپی ملک آئس لینڈ میں امریکی سفیر جیفری روز گونٹر کی جانب سے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دینے سے متعلق دوبارہ ٹویٹ کرنے اور انتشار پھیلانے پر انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دینے کی ٹویٹ کے بعد آئس لینڈ میں امریکی سفیر جیفری روز گونٹر نے گزشتہ ہفتے اپنے سفارتی ٹویٹ کہا کہ کورونا وائرس ’’نہ دکھائی دینے والا چینی وائرس‘‘ ہے اور ساتھ میں امریکہ اور آئس لینڈ کے پرچم کے پرچم کی ایموجیز بھی لگائیں جس کے بعد آئس لینڈ میں انہیں تنقید کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے آئس لینڈ کی قومی براڈکاسٹنگ کمپنی آر یو وی نے کہا کہ امریکی سفیر کی یہ ٹویٹ ان کے غیرسفارتی رویے کو ظاہر کرتی ہے جس پر کئی افرادا نے اس ٹویٹ سے آئس لینڈ کے پرچم کی ایموجیز کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

آئس لینڈ کے ایک میگزین نے جائزہ رپورٹ میں اس ٹویٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرسفارتی قرار دیا۔ آئس لینڈ میں امریکی شہری الزبتھ لے نے جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ اس ٹویٹ نے امریکی اور آئرلینڈ کے شہریوں کے غصے کو اکسایا ہے اور اس ٹویٹ کے خلاف ایک مذمتی درخواست شروع کی گئی ہے جس پر اب تک 370 سے زائد افراد نے دستخط کر دیئے ہیں۔

اس حوالے سے امریکہ اور آئس لینڈ کی دوہری شہریت کی حامل شہری جیسیکا بو نے اپنے ٹویٹ میں امریکی سفارتکار کو شرمندگی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے نسل پرستی اور سائنسدانوں کے مخالف جذبات رکھنے کے خلاف ہیں۔ آئس لینڈ کے ایک اور میگزین ریکجاوک گریپ وائن میں ایک آرٹیکل میں سیاسی جماعت پائیریٹ پارٹی کی رکن پارلیمنٹ سماری میک کارتھی نے امریکی سفیر کی ٹویٹ کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قسم کے وائرس کا کسی بھی ملک سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ نہ دکھائی دینے والے ہوتے ہیں بلکہ انہیں مائیکروسکوپ سے دیکھا جا سکتا ہے اور ہم سب ایک ساتھ کورونا وائرس کی وباء کا سامنا کر رہے ہیں لہذا اس قسم کیی قوم پرستانہ بیان بازی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔