یکساں نظام تعلیم براستہ اردو ذریعہ تعلیم سے ہی قوم کی نیا پار لگے گی، طیبہ عاطف

موجودہ طبقاتی نظام کے محافظ و دلدارہ اشرافیہ کے پسندیدہ نمائندوں کی اکثریت پر مشتمل ایک قومی نصاب کونسل اور تکنیکی ماہرین کی کمیٹی تشکیل وزیر تعلیم کی انگریزی نوازی اور قومی زبان مخالف عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں، اس حوالے سے حکومتی پالیسی واضح کی جائے

پیر 27 جولائی 2020 22:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جولائی2020ء) جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی ڈائریکٹر شعبہ تعلیم طیبہ عاطف کا کہنا ہے کہ یکساں قومی نصاب تعلیم کی آڑ میں قومی زبان کے خلاف گھناؤنی سازش ہے، اس مقصد کے لئے وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں موجودہ طبقاتی نظام کے محافظ و دلدارہ اشرافیہ کے پسندیدہ نمائندوں کی اکثریت پر مشتمل ایک قومی نصاب کونسل اور تکنیکی ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

یکساں نصاب کے مجوزہ مسودہ کو حتمی شکل د ینے کے لئے کونسل کے نامزد 29 ارکان پر مشتمل ارکان کا مشاورتی اجلاس 16جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے۔قومی نصاب کونسل کے غورو خوض کے لئے قومی زبان کی بجائے انگریزی زبان میں جاری کردہ یا Concept Paper یا قرطاس کار کے مطالعہ سے وفاقی وزیر تعلیم کی انگریزی نوازی اور قومی زبان مخالف عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں، ہم پوری قوم بالخصوص نسل نو کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے، وزیر تعلیم اس حوالے سے حکومتی پالیسی واضح کریں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ قرطاس کار اور کچی سے دسویں جماعت تک مختلف مضامین کی تدریس کے لئے ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی نصاب کونسل کی سفارشات پر مشتمل مجوزہ فریم ورک کے سرسری مطالعہ سے جن حقائق کا پتا چلا ہے وہ حیران کن اور تشویشناک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ زمینی حقائق کی روشنی میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز سرکاری سطح پر نفاذ اردو کی اب تک کی کوششوں کو سبوتاز کرنے، قومی زبان کو بے توقیر کرنے ،تعلیم کے نام پر انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں کے ذریعے قومی زبان و اقدار اور ملی تہذیب و ثقافت سے عاری غلام نسلوں کو پروان چڑھانے کی ایک اسکیم معلوم ہوتی ہے۔

ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی نصاب کونسل کی سفارشات پر مبنی مجوزہ لسانی فریم ورک آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزی ، وزیراعظم کے وعدوں سے انحراف ہے۔ اس مذموم منصوبہ سے ملک میں ناخواندگی، ترک تعلیم کی شرح ، بے روزگاری، بدامنی اور طبقاتی منافرت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں قومی اتحاد اور ملکی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔قومی زبان و اقدار کے تحفظ و فروغ کی بجائے قومی وسائل سے اشرافیہ کے قائم کردہ غیر ملکی تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور بے حیائی اور دین بیزار مغربی ثقافت کو فروغ دینا آئین و قانون سے سنگین غداری کے مترادف ہے جس کی ہر صورت ہر سطح پر شدید مزاحمت کی جانی چاہئیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قومی زبان سے محبت رکھنے اور اپنی نئی نسل کے روشن مستقبل کے حوالے سے فکر مند والدین اور ماہرین کا فرض ہے کہ وہ بیرونی ایجنٹوں کے ایما پر قومی زبان اردوکے بجائے انگریزی کے ناجائز تسلط کو برقرار رکھنے کی ان منصوبہ بند کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے میدان عمل میں آئیں اور قومی زبان و اقدار کے تحفظ کے لئے اپنی آواز بلند کریں۔