امریکہ کا چین اور روس کی کمپنیوں پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان

چینی اور روسی کمپنیاں ایران کے میزائل پروگرام میں مدد فراہم کررہی تھیں .امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 28 نومبر 2020 15:36

امریکہ کا چین اور روس کی کمپنیوں پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 نومبر ۔2020ء) امریکہ نے ایران کے میزائل پروگرام میں مدد فراہم کرنے پر چین اور روس کی کمپنیوں پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے جمعے کو جاری کردہ بیان میں چار کمپنیوں پر ایران کے میزائل پروگرام کے لیے حساس معلومات اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے.

(جاری ہے)

مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں پر امریکی حکومت کی امداد اور برآمدات پر دو سالوں کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں چین کی جن دو کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں چینگدو بیسٹ نیو میٹیریلز اور زیبو ایلیم شامل ہیں جب کہ روس کی دو کمپنیوں نی لکو گروپ اور جوائنٹ اسٹاک کمپنی ایلکون پر پابندیاں نافذ کی گئی ہیں. مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایران کی میزائل بنانے کی کوششوں کے خلاف اقدامات جاری رکھیں گے اور امریکہ ایران کو مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف معاشی پابندیاں نافذ کرنے کا اختیار استعمال کرتا رہے گا ‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ جو ملک یا کمپنی ان کی ایران سے متعلق پالیسیوں کی تعمیل نہیں کرے گی اس پر پابندیاں نافذ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا.

خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت کے دوران امریکہ اور ایران کے تعلقات میں تناﺅرہا ہے صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے 2018 میں الگ ہو گئے تھے جس کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہونے سے ایران کی معیشت کو نقصان پہنچا تھا جب کہ کرونا وبا کے باعث بھی اس کی معاشی صورتِ حال دگرگوں ہے.

رواں سال کے آغاز پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور معاملات جنگ کی نہج پر پہنچ گئے تھے خیال رہے کہ جو بائیڈن اس وقت نائب صدر تھے جب 2015 میں امریکہ نے دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں پابندیاں نرم کرنے کے عوض جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی شرط تھی بائیڈن مختلف مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں.