یومِ نسواں، دن کا ارتقا اور حقوق کا حصول

DW ڈی ڈبلیو اتوار 7 مارچ 2021 14:40

یومِ نسواں، دن کا ارتقا اور حقوق کا حصول

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مارچ 2021ء) عالمی یومِ خواتین دنیا بھر میں رنگ، نسل، قوم، ملک اور مذہب سے بالاتر ہو کر منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر کی خواتین اپنی معاشرتی کاوشوں، حقوق کے لیے جدوجہد، مساوات کے لیے کوششوں اور مختلف شعبہ ہائے جات میں نمایاں کارکردگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اس عزم کا اعادہ بھی کہ تمام معاشرہ میں صنفی بنیادوں کو موجود امتیاز کے خاتمے اور تمام شعبہ ہائے جات میں مساوی مواقع کے لیے مزید کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

میرا جسم اور تمہاری خوش گمانیاں

لاہور:عورت مارچ میں خواتین کی بھرپور شرکت

یومِ حقوقِ نسواں تاریخ کے آئینے میں

خواتین کا عالمی، دن مختلف معاشروں میں خواتین کے مسائل کی نشاندہی ہی کا نہیں بلکہ حقوق کی مسلسل جدوجہد کا بھی استعارہ ہے۔

(جاری ہے)

مگر اس کا ارتقا کیسے ہوا؟

سن 1977 میں اقوام متحدہ نے باقاعدہ طور پر خواتین کے عالمی دن کو تسلیم کیا تھا۔

یہ دن بیسویں صدی میں شمالی امریکا اور یورپ بھر میں خواتین کی مختلف لیبر تحریکوں سے عبارت ہے۔

امریکا میں تحریک

امریکا میں پہلی بار 28 مئی کو یوم خواتین منانے کا آغاز ہوا۔ سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے اس دن کو 1908 میں نیویارک میں مبلوسات سے وابسطہ مزدوروں کی ہڑتال کے تناظر میں منانے کا آغاز کیا تھا۔ یہاں خواتین نے ملازمت کے حالات اور ماحول کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

تاہم اس سے بھی قبل اس سلسلے میں پہلا سنگِ میل 1848 میں تب ہوا، جب خواتین کو غلامی کے خلاف بولنے سے روکا گیا۔ اس کے جواب میں نیویارک میں خواتین کے حقوق کے لیے پہلے قومی کنوینشن میں تب الیزبیتھ کیڈی اسٹینٹون اور لوکریٹیا موٹ نے چند سو افراد کے اجتماع میں اس پابندی کے خلاف آواز اٹھائی۔

یوں خواتین کے لیے شہری، سماجی، سیاسی اور مذہبی حقوق کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔

یہیں سے خواتین کے حقوق کی تحریک آغاز ہوئی۔

پھر یورپ کی باری

کوپن ہیگن میں سن 1910 میں سوشلسٹ انٹرنشینل کے اجلاس میں خواتین کے دن کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح پہلی بار دنیا بھر کی خواتین کے لیے فطری حقوق کے لیے تحریک شروع ہوئی۔

پہلی بار یوم نسواں

سن 1911 میں متعدد یورپی ممالک اور امریکا میں خواتین کا دن منایا گیا۔

تاہم یہ دن 1848 میں کمیون ڈے پیرس‘ نامی اجتماع کی یاد کے طور پر 19 مارچ کو منایا گیا۔ اس دن پہلی بار خواتین کے لیے ووٹ اور عوامی عہدے رکھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے ملازمت کے حق، تعلیم و تربیت کےحق اور صنفی امتیاز کے خاتمے کا مطالبہ سامنے آیا۔

روس خواتین بھی میدان میں

بین الاقوامی یومِ خواتین جنگوں کے خلاف احتجاج کا ایک استعارہ بھی بن گیا۔

سن 1913 سے روس میں فروری کے آخری اتوار کو بین الاقوامی یوم نسواں کو امن کی ایک تحریک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ شمسی کیلنڈر میں یہ دن آٹھ مارچ کو بنتا ہے۔ تب یورپ میں بھی آٹھ مارچ کو یوم خواتین منایا جا رہا تھا۔ اس کے بعد کے برسوں میں خواتین کا یہ عالمی دن عالمی جنگ کے خلاف احتجاج کا ایک استعارہ بھی بن گیا۔

جنگ سے تنگ

پہلی جنگ کی تباہ کاریوں کے تناظر میں پندرہ اپریل کو بارہ مختلف ممالک سے تیرہ سو خواتین ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں جمع ہو گئیں اور جنگ کے خلاف مظاہرہ کیا۔

روسی خواتین کے لیے ووٹ کا حق

1917 میں عالمی جنگ کے پس منظر میں روسی خواتین نے 'روٹی اور امن‘ کی تحریک شروع کی۔ اس برس یوم خواتین کے چار روز بعد روس میں زا صوبے کی حکومت نے خواتین کے لیے ووٹ کے حق کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

پیش رفت پر پیش رفت

خواتین کے حقوق کی یہ تحریک دنیا بھر میں شعور و آگہی کے استعارے میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور تمام ہی معاشروں میں خواتین کے لیے حقوق کی راہ ہم وار ہونے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک دنیا کے کئی ممالک میں آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1975 کو خواتین کا سال قرار دیا گیا، تو اس کے دو ہی برس بعد جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین قرار دے دیا گیا۔ ابتدا میں اسے 'اقوام متحدہ کا دن برائے حقوقِ خواتین و بین الاقوامی امن‘ قرار دیا گیا تھا۔

1995 تاریخ ساز موقع

1995 میں اقوام متحدہ کے مختلف ذیلی اداروں نے صنفی امتیاز سے متعلق بیجنگ اعلامیہ اور پلیٹ فارم فار ایکشن کے نام سے ایک تاریخی دستخط مرتب کیا۔ اس پر 189 ممالک کے درست کیے۔ اس کے تحت 12 انتہائی اہم شعبوں میں خواتین کے امور پر توجہ دی گئی۔

پائیدار ترقی کے لیے خواتین کا کردار اہم

سن 2030 کے لیے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی سے متعلق اہداف میں 'صنفی مساوات کا حصول اور خواتین و لڑکی کے اختیارات میں اضافہ‘ درج ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کی مساوی شمولیت کے بغیر پائیدار ترقی کے ہدف کا حصول ناممکن ہے۔