عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی کابل میں طالبان قیادت سے ملاقات

عالمی ادارہ صحت جنگ زدہ ملک میں انسانی تباہی کو روکنے کے لیے اپنی امداد بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، ڈی جی ڈبلیو ایچ او

جمعرات 23 ستمبر 2021 00:03

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2021ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریس نے افغان دارالحکومت میں قائم مقام وزیراعظم حسن اخوندزادہ سے ملاقات میں منجمد عالمی فنڈز سمیت انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امداد کی تقسیم کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔عالمی عالمی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریس انتہائی اہم دورے پر کابل پہنچے ہیں جہاں انھوں نے طالبان کے عبوری وزیر اعظم حسن اخوند زادہ اور قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت اہم رہنمائوں سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران افغانستان میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عالمی اداروں اور دیگر ممالک سے دی جانے والی امداد کی حکومت کو فراہمی اور اس کی عوام میں منصفانہ تقسیم کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔

(جاری ہے)

نگراں وزیراعظم حسن اخوندزادہ نے اس اہم ملاقات میں افغانستان کے لیے مختص کیے گئے منجمد فنڈز کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جو افغانستان میں ترقیاتی کاموں اور انسانی بحران سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اس موقع پر ڈی جی ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت جنگ زدہ ملک میں انسانی تباہی کو روکنے کے لیے اپنی امداد بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے طالبان قیادت سے امدادی کارکنان کے تحفظ اور رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا افغانستان کا دورہ طالبان کے نائب وزیر خارجہ امیر اللہ متقی کی اٴْس پریس کانفرنس کے بعد کیا گیا ہے جس میں انھوں نے عالمی تنظیموں اور اداروں سے امداد کی فراہمی اور فنڈز کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔

نائب وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے شکوہ کیا کہ سابق انتظامیہ بدعنوان تھی تاہم عالمی برادری نے ان کی مدد کی تھی تاہم اب امارت اسلامیہ کا نظام قائم ہے جو بدعنوانی سے پاک ہے توپابندی لگائی گئی ہے،۔انسانی امداد میں تاخیر اور رکاوٹیں عالمی برادری کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔امیر اللہ متقی نے کہا کہ پابندیاں اور دباؤ ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی ادارے اور اس کی انسانی امداد چند طاقتور ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کو اپنی ساکھ کی خاطر اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ افغانستان میں 55 لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور اس وقت افغانستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔