بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے مغرب آزادی اظہار رائے کیساتھ مسلمانوں کے جذبات کو بھی مد نظر رکھے، صدر مملکت

آزادی اظہار رائے کے لبادے میں نفرت پیدا کرنا ایک ایسی چیز ہے جس پر مغرب کو غور کرنا چاہئے،عارف علوی کا امریکی یونیورسٹی میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے ورچوئل خطاب

جمعہ 19 نومبر 2021 23:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2021ء) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے مغرب آزادی اظہار رائے کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات کو بھی مد نظر رکھے، آزادی اظہار رائے کے لبادے میں نفرت پیدا کرنا ایک ایسی چیز ہے جس پر مغرب کو غور کرنا چاہئے تاکہ اسلام، مسیحیت اوردیگر مذاہب کے درمیان تعاون بڑھایا جاسکے۔

صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو ’’ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا اہتمام سابق سفیر اکبر ایس احمد نے کیا تھا جو واشنگٹن میں قائم امریکن یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جس طرح یورپ میں ماضی کے بعض نسلی مظالم پر بات کرنا جرم تھا، اسی طرح مسلمانوں کی حضور اکرم ? سے محبت و عقیدت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، آزادی اظہار رائے کے نام پر گستاخانہ خاکے مسلمانوں کیلئے شدید تکلیف کا باعث بنے ہیں جس سے مغرب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ میں تعصب اور مذہبی اختلاف نے متعصبانہ پالیسی کو جنم دیا جس کا نتیجہ تعصبات کی بنیاد پر پالیسی سازی کی صورت میں نکلا۔ صدر مملکت نے کہا کہ انسانیت کو گلوبل وارمنگ اور وبائی امراض جیسے خطرات کا سامنا ہے اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بطور انسان ہمیں اپنے رہن سہن کو ایڈجسٹ کرنے، اس تاریخ کو جو ہمیں گمراہ کرتی ہے، کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعاون اور امن کے مستقبل کو بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی سر زمین موہنجوداڑو ، ہڑپہ ، مہرگڑھ اور بدھ تہذیبوں کا گڑھ تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کے قیام کے وقت قائد اعظم نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا، پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے پر عزم ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارت اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ قانون سازی سے بین المذاہب اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا بھر میں دوسرے ممالک کے خلاف ایک مخصوص سیاسی ڈائیلاگ کی تکمیل کے لئے نفرت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر اطلاعات کے طوفان میں نئی نسل کو سچ اور فیک نیوز میں فرق کرنا ہوگا۔ صدر مملکت نے کہا کہ اقوام کے مابین تنائو اور اختلاف کم کرنے کیلئے دنیا بھر کے لوگوں کو قریب لانا ہوگا، مذہب کا دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہتھیار کے طور پر استعمال قابل مذمت ہے۔

انہوں نے امریکن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے ابن خلدون چیئرکی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کے مختلف معاملات پر مثبت بات چیت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اکبر ایس احمد کے علاوہ ڈین سکول آف انٹرنیشنل سروس کرسٹین چن اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیٹ ایریون اور امریکن یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبران اور طلباء نے ورچوئل سیشن میں شرکت کی۔