ٰآٹھ ایل این جی کارگوز کی درآمد کے لیے ٹینڈرز پر کسی نے رابطہ نہیں کیا ،وزارت توانائی کا اعتراف

صنعتوں کی جانب سے فراہمی میں کمی اور قیمتوں کے تعین کے چیلنجز پر حاصل کردہ حکم امتناع گیس کی کمی کی اہم وجوہات ہیں،حماد اظہر وزارت توانائی کی ناقص کارگردگی ملک کی آدھے حصے کو متاثر کر رہی ہے،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اراکین کی گیس کے شدید بحران پر تنقید

جمعرات 6 جنوری 2022 23:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 جنوری2022ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں گیس کے شدید بحران پر اراکین کمیٹی کی تنقید کے دوران وزارت توانائی نے تسلیم کیا کہ 8 ایل این جی کارگوز کی درآمد کے لیے ٹینڈرز پر کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے، صنعتوں کی جانب سے فراہمی میں کمی اور قیمتوں کے تعین کے چیلنجز پر حاصل کردہ حکم امتناع گیس کی کمی کی اہم وجوہات ہیں جبکہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ کھاد کی انڈسٹری کو بلا تعطل گیس کی فراہمی سے یوریا کی پیداوار 11 فیصد زیادہ ہوئی ہے تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس کمیٹی چئیرمین سینیٹر عبد القادر کی سر براہی میں ہوا اجلاس میں وزارت پیٹرولیم ، ایس این جی پی ایل اور دیگر اداروں کے حکام شریک ہوئے گیس کی قلت اور ایل این جی پی ایل کے متعلق اہم امور زیر غور رہے ہیں ، میٹنگ کے آغاز میں اپوزیشن نے وفاقی وزیر برائے توانائی کی عدم شرکت پر بائیکاٹ کرتے ہوئے وال آوٹ کر گئے تاہم تھوڑی دیر کے بعد وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر کی اجلاس آمد پر اپوزیشن کمیٹی اراکین دوبارہ اجلاس میں آگئے اس موقع پر چئیرمین کمیٹی سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ دو مہینے بعد میٹنگ بلائی جاتی ہے ایجنڈہ نکات زیادہ ہوتے ہیں مگر اپوزیشن کے اراکین وقت ضائع کر دئیے ہیں ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں گیس کے شدید بحران پر اراکین کمیٹی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کہ وزارت کی ناقص کارگردگی ملک کی آدھے حصے کو متاثر کر رہی ہے گیس کی فراہمی میں باقاعدگی محکمے کی عدم دلچسپی اور پالیسیوں میں تواتر نہ ہونا ہے اس پر دوران وزارت توانائی نے تسلیم کیا کہ 8 ایل این جی کارگوز کی درآمد کے لیے ٹینڈرز پر کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے، سیکرٹری پیٹرولیم اس وقت بارہ سو تک فلنگ کے لئے کرتے ہیں موسم سرما میں گیس کی قلت ہوتی ہے اس کے لئے مشکلات ہوتی ہیں ہمارے پاس انتہائی محدود وسائل ہیں آج سے بیس سال پہلے ملک میں گیس وافر تھی اور حکومت نے گذشتہ برس فائنل کیا گیا تھا مینجمنٹ کیپیٹل پاور جنریشن کے لیی65ارب روپے سالانہ سبسڈی پندرہ نومبر 20 اس موقع پر پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ زیر زمین گیس ذخیرہ کرنے کے لیے ایک غور کیا گیا ہے تاکہ اس مسئلے سے مستقل طور پر نمٹا جاسکے۔

گیس کی قیمتوں کا تعین بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ درآمدی گیس کے تعین کا کوئی قانون نہیں ہے اور اس معاملے سے ایڈہاک میکانزم کے تحت نمٹا جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے 58 فیصد صارفین کا تعلق گھریلو شعبے سے ہے اور درآمد شدہ ایل این جی کے لیے گیس باسکٹ بنانے کے لیے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔

کمیٹی اجلاس میں وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے کہا کہ پائپ لائن کے اوپر سوئی کمپنیوں کی مناپلی ختم کر دی گئی ہیں اور لائحہ عمل واضع کیا جا رہا ہے حکومت ٹرمینلز کو تھرڈ پارٹی ڈیل کر نے جا رہے ہیں باسٹھ ارب روپے کی سبسڈی گیس کے لئے دی جارہی ہے حماد اظہر نے مزید کہا کہ پچھلے سال اور اس سال میں صرف 1 کارگو کا فرق آیا ہے، شارٹ فال لوکل گیس کی کمی سے آرہاہے، ایل این جی کیباعث نہیں۔

انہوں نے کہا کہ شارٹ فال ڈومیسٹک سائیڈ پر آتاہے، انڈسٹریل سائیڈ پر نہیں، عالمی منڈی میں ایل این جی کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اضافی کارگوز پرائیویٹ سیکٹر کو لانے ہیں، ڈومیسٹک ڈیمانڈ اور سپلائی میں اضافے کی وجہ سے گیس کا شارٹ فال آتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جلد ایل این جی کے 2 اضافی کارگوز مل جائیں گے نلیگ کیمعاہدے کے باعث ایل این جی کے 4 سال مہنگی کارگوز خریدے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جس وقت ن لیگ نے ایل این جی کا معاہدہ کیا اس وقت سستے معاہدے ہورہے تھے انہوں نے مزید کہا کہ پبلک پرائیویٹ سیکٹر کا ایک خودمختار بورڈ موجود ہے جو فیصلے کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاور پلانٹس کی یوٹیلائزیشن 90 فیصد تک ہوتی ہے، ملک میں بجلی کا ڈومیسٹک استعمال زیادہ اور صنعتی کم ہے۔آر ایل این جی پلانٹس 80 سی90 فیصد کیپسٹی پر کام کررہے ہیں، ن لیگ کے مقابلے میں آر ایل این جی کے پلانٹس بہتر کیپسٹی پر چل رہے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں گیس سستی ہے، برطانیہ اور دیگر ممالک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یہاں نہیں ہوا وفاقی وزیر برائے توانائی نے کہا کہ دنیا میں اس وقت یوریا بوری کی قیمت 11,000 جبکہ پاکستان میں تقریبا 1800 روپے ہے۔ اس سال نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی اور کھاد کی انڈسٹری کو بلا تعطل گیس کی فراہمی سے یوریا کی پیداوار 11 فیصد زیادہ ہوئی۔

فرٹیلائزر پلانٹس کے پاس 65 ہزار میٹرک ٹن یوریا موجود ہے ، پنجاب میں تادیبی اقدامات کی بدولت یوریا کی بلاتعطل فراہمی برقرار رکھی جارہی ہے ، کسان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ڈیلر یوریا کھاد کو زیادہ دیر رکھ نہیں سکیں گے حماد اظہر نے مزید کہا کہ ملک میں گیس بحران کم کرنے کیلئے حکومت کو تھرڈ پارٹی ایکسس (ٹی پی ای) قوانین کے تحت موجودہ ایل این جی ٹرمینلز کو فوری طورپر توسیع دینی چاہیے۔

اس وقت پاکستان کو گیس کی فراہمی میں اینگرو ایلنجی ٹرمینل کا 15فیصد حصہ ہے اور ٹرمینل 630-690 ایم ایم سی ایف ڈی ری گیسیفیکیشن کی صلاحیت کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا ٹرمینل ہے۔انہوں نے کہا کہ طلب اور رسد کے گیپ کو ختم کرنے کیلئے ایک مختصرمدتی اور تیز ترین حل موجودہ ٹرمینلز کی توسیع ہے ، پاکستان کو آخرکار ایف ایس آر یو بیسڈ ٹرمینلز کے بجائے آنشور ٹرمینلز کی طرف آنا ہوگا۔