سوداللہ اوررسولؐ کے ساتھ کھلی جنگ ہی:حافظ سعد حسین رضوی

ملک کو سود سے پاک کرنے کے عدالتی فیصلے کو من و عن قبول کیا جائے دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالا تر ہے

بدھ 29 جون 2022 22:01

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 جون2022ء) امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی نے کہا کہ اسلامی نظام معیشت سود کی ممانعت کرتا ہے اور سود کی روک تھام سے ہی معاشی استحکام اور خوشحالی کی امید کی جا سکتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں سودکی ممانعت کی گئی ہے، دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دینِ اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

شریعت ِاسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 27 رمضان المبارک 2022 سود کے خلاف ایک تاریخی اور عظیم فیصلہ سنایا، اور بالکل واشگاف الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ سود حرام ہے، اللہ کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے، لہذا حکومت پانچ سال کے اندر اپنے تمام معاشی نظام کو سود سے پاک کرئے۔

یہ بڑا خوش آئند فیصلہ تھا، چاہیے تو یہ تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں، اور اس کے نفاذ کے لیے ماہرین سے آراء لی جاتیں، تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاشی نظام سود سے پاک ہو سکے۔ لیکن گذشتہ تین دن پہلے سٹیٹ بنک آف پاکستان اور چار نجی بنکوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ سعد حسین رضوی کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ سناچکی، اب سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرنا اسلام دشمنی ہے، موجودہ حکومت ملک کے سیاسی و معاشی، نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

حکومت کو واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوبؐ سے جنگ کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ملک کو سود سے پاک کرنے کے عدالتی فیصلے کو من و عن قبول کیا جائے اور اس پر علماء اکرام ، مذہبی رہنماوں اور ماہرین سے رائے طلب کی جائے تاکہ ہماری ڈوبتی ہوئی معیشت اور معاشرت کی تباہی اور سنگین نوعیت کے نہ ختم ہونے والے معاشی مسائل کا خاتمہ ہوسکے۔